Budget aur zarat

بجٹ اور زراعت




خوش آئند ہے کہ قومی آمدنی اُور اَخراجات کے سالانہ میزانیہ (بجٹ) میں زرعی شعبے کے لئے بطور خاص تعمیر و ترقی اور اِصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے چند ایسی ترجیحات بھی وضع کی گئی ہیں جنہیں اگر حسب اعلان عملی جامہ پہنایا جائے تو اِس سے خاطرخواہ بہتری آئے گی۔ زرعی شعبہ کبھی بھی نظرانداز نہیں رہا لیکن اِسے خاطرخواہ توجہ نہیں مل رہی اور حقیقت حال یہ ہے کہ یہی وہ واحد شعبہ ہے جو ملک کو موجودہ بحران سے نکال سکتا ہے۔رواں ہفتے ’پلاننگ کمیشن‘ نے زرعی پالیسی اور سبز انقلاب کی حکمت عملی کے عنوان سے پالیسی ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جو اِس سے قبل تین مرتبہ ملتوی کیا گیا۔ بہرحال فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بالخصوص جن مسائل و مشکلات کی صورت بحرانوں کا سامنا ہے اُن سے نمٹنے کا تقاضا یہ ہے کہ ’دور اندیشی‘ کا مظاہرہ کیا جائے اور آبی وسائل کی حفاظت‘ آبی وسائل کے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اِضافہ اور زرعی اَراضی کا غیرزرعی مقاصد کے لئے استعمال روکنے جیسے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر پاکستان میں قابل کاشت (زرعی) زمین اور پانی دونوں ہی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف کاشتکاروں کو قرض دیئے جاتے ہیں لیکن زراعت پیداواری اخراجات (فصل پر اُٹھنے والی لاگت) کی وجہ سے منافع بخش نہیں رہی تو فیصلہ سازوں کو اِس بات کے بھی مختلف پہلوو¿ں کا جائزہ لینا ہوگا کہ زرعی پیداواری لاگت کیسے کم کی جائے اور کیا زرعی قرض دینا ہی کافی ہے؟ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کاشتکارہر فصل کی کاشت اور اُس کی کٹائی کے وقت مختلف اوقات میں قرض لے کر ضروریات پورے کرتے ہیں لیکن جب فصل کی اصل قیمت بھی وصول نہیں ہوتی تو انتہائی محنت کے باوجود بھی وہ نہ صرف مقروض رہتے ہیں بلکہ اُن کے ذمے واجب الادا¿ قرض کی مالیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اِس کے علاو¿ہ ’آرتھ کا استحصالی نظام‘ بھی اپنی جگہ موجود ہے جس سے کاشتکاروں کو رہائی دلانے کے لئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں ایک اندازے کے مطابق کسی بھی فصل کی ایک چوتھائی قیمت (پچیس فیصد) مختلف ٹیکسوں اور فصل کو منڈیوں میں فروخت کرنے والے آرتھ کے نظام کی نذر ہو جاتی ہے۔ پاکستان سے ملتی جلتی صورتحال بھارت میں بھی ہے جہاں زرعی شعبہ یکساں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے تاہم بھارت میں نجی اداروں کی شراکت اور ’آرتھی (مڈل مین) کردار‘ کے حوالے سے حکومت نے نجی اداروں کی شراکت سے قابل ذکر کام کیا ہے۔ اسٹار بکس اور امول انڈیا نامی دو کمپنیوں نے چاول (دھان) کی خریداری‘ اِس کی صفائی‘ خشک کرنے کے عمل اور کھیتوں کے قریب گودام قائم کر کے فصل پر اُٹھنے والے اخراجات کم کرنے سے شروعات کی۔ کسانوں کو منظم کیا گیا اور اُنہیں قرض دیئے گئے تاکہ وہ فصل میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ کسانوں کو تصدیق شدہ بیج‘ کھاد‘ حشرہ کش ادویات اور مشینری بھی کرائے پر دی گئی اور اِس سلسلے میں مشاورتی معاونت بھی فراہم کی گئی۔ فصل کٹائی کے وقت تک‘ کسانوں کو اپنی فصل بیچنے‘ اُسے ذخیرہ کرنے‘ پراسیس اور سٹور‘ پروسیسنگ اور فروخت کے قانونی اختیار کا تحفظ کیا گیا اور خوردہ یا تھوک اور آخر میں ویلیو چین کو مکمل کرنے کے لئے برانڈنگ اور برآمد کرنے جیسے طریقوں سے اُنہیں روشناس کرایا گیا۔ پاکستان میں اگرچہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے زرعی تحقیقی ادارے قائم نہیں ہو سکے جہاں زرعی ترقی پر باقاعدگی سے کام ہو لیکن ایسی ملکی و غیرملکی کمپنیاں موجود ہیں جو زراعت میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور چند ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جو زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور روایتی زرعی طریقوں کی اصلاح کے لئے کوششیں کر رہی ہیں۔ منافع بخش زراعت اور اِس کے سماجی اثرات جیسے دوہرے اہداف کے ساتھ اِن کوششوں کی بدولت معیاری و تربیت یافتہ افرادی قوت میسر آ رہی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اِسے پورے ملک میں وسعت دی گئی تو اِس سے پاکستان کی زرعی مصنوعات کی مقامی اور عالمی منڈیوں میں طلب نمایاں طور پر بڑھے گی۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں ہر سال ’30 ہزار‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے مختلف شعبوں میں گریجویٹس کا اضافہ ہوتا ہے لیکن اِن گریجویٹس کو عملی زندگی کا تجربہ نہیں ہوتا اور یہ گریجویٹس زرعی شعبے کو اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی توجہ دلانے پر زراعت کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔ زرعی شعبے کو ہی سال بجٹ کے موقع پر ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل (اِضافے) سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزارت ِخزانہ کے ٹیکس جمع کرنے والے ’ذیلی شعبے‘ کی بھی کوشش رہتی ہے کہ وہ زراعت سے وابستہ شعبوں پر عائد مختلف بالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ زرعی شعبہ تو پہلے ہی اپنی سکت سے زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ ملک میں لگ بھگ چھیاسٹھ لاکھ نجی فارم ہاو¿سز ہیں جن میں پچاسی فیصد چھوٹے درجے کے فارم ہاو¿س ہیں یعنی ایسے زرعی قطعات جن کا رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم ہے۔ قومی سطح پر لئے گئے جائزے سے علم ہوا ہے کہ کاشتکار ایک سال کے دوران تمام فصلوں سے بمشکل پچاس ہزار روپے فی ایکڑسے زیادہ نہیں کما سکتا۔جس طرح حکومت نے قابل ٹیکس آمدنی کا تعین کر رکھا ہے بالکل اِسی طرح زرعی زیرکاشت اراضی کے تناسب سے ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسانوں کی اکثریت خواندہ نہیں ہوتی وہ اپنی فصل کے بارے میں معلومات یا اپنی آمدنی کے ثبوت کے طور پر دستاویزات مرتب نہیں کر سکتے۔ کسانوں کی ناخواندگی ہی کی وجہ سے اُن کے درمیان رقومات کی لین دین یا اخراجات زبانی طور پر طے ہوتے ہیں۔ ملک کے دیہی علاقوں میں باضابطہ مالیاتی اداروں کا قیام اور انٹرنیٹ کی سستے داموں فراہمی سے بھی کاشتکاری کی مشکلات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔پاکستان کے زرعی شعبے کو تین مختلف نوعیت کے الگ الگ چیلنجز درپیش ہیں۔ سب سے پہلے تو ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کم ہے اور آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس وصول نہیں کئے جاتے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ خوراک کے تحفظ (فوڈ سکیورٹی) کو چیلنجز درپیش ہیں اور زرعی انکم ٹیکس لاگو کرنے سے اندیشہ ہے کہ زرعی پیداوار میں مزید کمی آئے گی۔ تیسرا چیلنج یہ ہے کہ زراعت کے روابط خدمات کے شعبے اور صنعت کے ساتھ مربوط نہیں‘ جس کی وجہ سے کم آمدنی ہوتی ہے اور زراعت کے شعبے کی پیداوار اور پیداواری صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہو رہا۔ تیسری اور سب سے اہم بات یہ مغالطہ ہے کہ کسان ٹیکس ادا نہیں کر رہے جبکہ وہ پہلے ہی ہر ایک شے کی خریداری پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور بڑے کسان زیادہ زرعی انکم ٹیکس بھی ادا کر سکتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ قرض دہندگان اداروں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے‘ فارموں کو بڑے اور زیادہ کارپوریٹائزڈ بننے کی ضرورت ہے تاکہ وہ جدید پیداواری ٹولز اور تکنیک کو مو¿ثر طریقے سے استعمال کرسکیں۔

Leave a Reply