Corruption kahani aur la ilaj mehangai

کرپشن کہانی اور لا علاج مہنگائی




کچھ روز پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آیا تو عوام اپنی کمر کس لے۔یہ ایک وزیر اعظم کی جانب سے ایک عندیہ ہے عوام کے لیے مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سامنا کرنے کا کیونکہ اس بات کی گہرائی کا موازنہ کیا جائے تو دو چیزیں واضح ہوتی ہیں پچھلے دنوں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی، اس کیوجہ سے بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات پہ یہ بات اثر انداز ہو سکتی ہے۔اب بجٹ بھی آنے والا ہے جو پیٹرول کی قیمت میں کمی کی گئی ہے اس میں پھر سے اضافہ کیا جائے گا یہ بھی ایک حکومت کی جانب سے عوام کی سوچ کے ساتھ پلے کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ٹھیک اُسی طرح گندم کی پیداوار میں اس بار اضافہ ہوا باوجود اسکے پرائز کنٹرول کمیٹیاں بھی خاموش تماشائی بنی ہیں اور حکومتی سطح پہ بھی کوئی خاطر خواہ ایکشن نہیں لیا گیا عوام کو ابھی تک اُسی مشکل کا سامنا ہے آخر حکومت کسی بھی بات پہ عمل کرانے پہ اتنی بے بس کیوں؟
اس وقت حکومتی سطح پہ بجٹ 2023-24 کے حوالے سے حتمی شکل دینا شروع کر دی گئی ہے۔رواں سال فروری میں منی بجٹ کے ذریعے لگائے گئے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس کو نہ صرف برقرار رکھا جائے گا بلکہ مزید لگژری اشیاء پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔ویسے بھی شہباز شریف نے وقت سے پہلے عندیہ دے دیا کہ عوام کمر کس لے کیونکہ آخر کار عوام کو ہی قربانی دینا پڑے گی۔
ایف بی آر کے مطابق بجٹ کی تیاری میں روزمرہ اشیاء پر اضافی جی ایس ٹی نئے بجٹ میں بھی برقرار رکھی جائے گی جبکہ درآمدی دودھ، مچھلی، گوشت جام، جیلی، وغیرہ پر 18%سیلز ٹیکس بھی برقرار رہے گا۔ چینی، صابن، سرف، اور لیکوئیڈ، ٹوتھ پیسٹ، ماؤتھ فریشنر، پر سیلز ٹیکس 18% ہو گا۔اس سال بجٹ میں 45ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ فنڈ ز لیپ ٹاپ سکیم سمیت 152مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے جس میں 12ارب روپے کی لاگت کی وزیراعظم لیب ٹاپ سکیم پر 6کروڑ80لاکھ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بات تو عیاں دکھائی دے
رہی ہے کہ روزمرہ اشیاء ہیں جن کے سستا ہونے کے چانس نہیں دکھائی دے رہے۔ایک طرف تو حکومتی سطح پہ بجٹ کی تیاری تو دوسری جانب عوام کو مہنگائی کی فکر لاحق ہے۔مگر جو ایک بات بجٹ کے ساتھ ساتھ ڈسکس کی جاتی ہیں وہ کرپشن کی داستانیں ہیں آج تک جو بھی اقتدار کی کرسی پہ آیا اُس پہ بیشمارکرپشن تو ثابت ہوئی مگر آج تک اُس کرپشن سے پیسہ حاصل کرکے کبھی حکومتی خزانے میں جمع نہیں ہو سکا۔
آج جو ملک کی اکانومی کا حال ہے ملک کو اس حال تک پہنچانا یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے یہ ہمارے سیاستدانوں کی شب و روز کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک کا خزانہ خالی اور عوام کی دو وقت کی روٹی چھین کر ایک وقت کی روٹی پہ لا کھڑا کیا ہے۔مگر اپنے اثاثے ملک سے باہر ہی رکھیں گے،میں ٹاک شو میں تھی اسی پوائنٹ کو ڈسکس کیا جا رہا تھا کہ سیاستدان بیوقوف نہیں ہیں کہ وہ پاکستان میں اپنے اثاثے لا کر خسارہ اٹھائیں،تو یہ بھی تو بات ہے نا کہ انہی لوگوں نے ہر دور اقتدار سے پیسہ نکال،نکال کے جو اثاثے بنائے یہ انہی لوگوں کی اعلیٰ کارکردگی کا ہی نتیجہ ہے اگر یہ لوگ اپنے اثاثے ملک میں واپس نہیں لا سکتے تو پھر یہ لوگ اقتدار لینے کے بھی حقدار نہیں ہیں مگر ان لوگوں نے ملک کے سسٹم کو اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ کوئی عام پڑھا لکھا شخص اب سیاست میں آنے کا تصور نہیں کر سکتا۔
افلاطون کی کہی ہوئی بات آج کے سسٹم میں سچ دکھائی دے رہی ہے کہ جب اچھے لوگ سیاست سے کنارہ کشی کر لیں تب چور ڈاکو اور لٹیرے ہی آتے ہیں۔تو یہی کچھ ہو رہا ہے ماضی کی جماعتوں نے اقتدار میں رہ کر معاشی دہشت گردی کی مگر عمران خان کی جب باری آئی تو سب یہی کہتے تھے کہ یہ ایک ایماندار لیڈر ہے مگر اس کی کرپشن کی داستان سامنے آئی تو جیسے ہی کابینہ کے لوگوں کے اعترافی بیانات سامنے آئے تو فوراً سے بشریٰ بی بی نے بھی عمران سے علیحدگی اختیار کرکے نیب میں گواہ بن گئی۔ جو عورت نانی بن کے خاتون اول بننے کے لیے اپنی فیملی چھوڑ سکتی ہے تو وہ عمران خان کے ساتھ کیا وفا کرے گی۔یہ بات تو پہلے ہی شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہہ دی تھی کہ انہوں نے متعہ کیا ہے۔ آپ میں سے کسی کو شاید یاد ہو کہ ڈاکو جب بھی ڈکیتی کرنے آتے ہیں تو وہ اپنے منہ کو ڈھانپ کے آتے ہیں تاکہ اُن کی نشاندہی نہ ہوسکے اسی طرح ہمارے ملک کی خاتون اول نے بھی ڈاکوؤں کا ہی بھیس رکھا اور شرعی پردے کو مذاق بنایا۔القادر ٹرسٹ کیس میں نیب طلبی میں بہت ہی خوبصورت بیان ریکارڈ کرایا کہ ملک ریاض نے جگہ تحفے میں دی تھی۔
عمران خان 190ملین پاؤنڈ کیس میں بری طرح پھنس گئے اور ان کا جواب بھی تسلی بخش نہیں اس کرپشن کے مرکزی کردار بشریٰ بی بی اور فرح گوگی اور اُس کے خاوند کے ساتھ کسی بھی طرح کوئی رعایت نہیں کرنی چاہیے اگر اب احتساب کے عمل کو روکا جائے گا تو اس ملک میں کرپشن کی راہیں مزید ہموار ہونگی۔عمران خان جس کے لیے سب پارٹی کے لوگ کہتے تھے کہ خان کرپٹ نہیں ہے تو خان کی کرپشن کی داستان کی شہادتیں تو اُن کی اپنی کابینہ سے دے دی ہے۔اسی طرح شہباز شریف اپنی جماعت کے اہم رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے لیے ہی وقت سے پہلے اقتدار پہ براجماں ہوئے۔
اب بشریٰ بی بی کے وعدہ معاف گواہ بننے سے ایک عندیہ ملتا ہے پہلے کرپشن کرو اور پھر ادارے سے ہاتھ ملا لو اسی طرح جیسے 9مئی کے پُر تشد احتجاج کے بعد تمام لیڈرز پریس کانفرنس کر کے بری الزمہ ہو گئے اور غریب کے بچے آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں،اور حالیہ عمران خان کا بین الاقوامی میڈیا پہ انٹر ویومیں اینکر نے سوال پوچھا کیا آپ اپنے بیٹوں کو پاکستان بلانا چاہیں گے؟تو عمران خان نے بڑا پیارا جواب دیا کہ اس صورتحال میں کبھی نہیں بلا سکتا۔
اب اس جواب کے بعد عوام ہوش کرے پارٹی بازی سے پہلے محب وطن بنیں۔
عمران خان کی سوچ کے بعد سب سیاستدانوں کی اب سوچ ہمارے ملک کے لیے یکساں ہیں کہ ان کو صرف اقتدار اس ملک سے چاہیے۔اب اگر احتساب کے سلسلے کا آغاز اگر ہوا ہے تو بالکل اسے تمام لوگوں کے لیے یکساں ہونا چاہیے نہ کے وعدہ معاف گواہ بن کے اور سیاسی شخصیات بیک ڈور سے ایک دوسرے کو شیلٹر دینا بند کر دیں پھر ہی کرپشن کی راہیں روکی جا سکتی ہیں وگرنہ اس ملک کی معاشی حالت سنورنے کے بجائے ابتر ہو سکتی ہے۔

Leave a Reply