Ikeeswen sadi ki bari siasi tabdeli

اکیسویں صدی کی بڑی سیاسی تبدیلی 




 آج کے کالم کا آ غازہم درج ذیل اقوال زریں سے کرنا چاہتے ہیں جن میں علم کا ایک خزانہ پنہاں ہے‘جس طرح دن اور رات ایک جگہ جمع نہیں ہوتے اسی طرح حب دنیا اور حب خدا ایک جگہ جمع نہیں ہوتے ہر چیز کی ایک زکواة ہے ‘عقل کی زکواة یہ ہے کہ جاہلوں کی جہالت کو برداشت کریں ‘کم خوراکی جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے‘ خاموشی کی زیادتی وقار کو بڑھاتی ہے ‘ان چند شہ پاروں کے بعد اگر چند اہم عالمی امور کا ہلکا سا تذکرہ ہو جائے تو بے جا نہ ہوگا ‘چینی حکومت کے اس تازہ ترین بیان کہ دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈاﺅن میں وہ پاکستان اور ایران کے ساتھ ہے ‘کو وطن عزیز کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے طبقوں نے سراہا ہے ‘درحقیقت جس قدر پاکستان اور ایران کو آج امن کی ضرورت ہے اس سے کئی گنا زیادہ چین بھی اس خطے میں امن کا طلبگار ہے کیونکہ اس کے سی پیک کے منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اور اس کی جلد از جلد تکمیل ان ممالک میں امن عامہ کے قیام کے ساتھ جڑی ہوئی ہے‘ بھارت میں حال ہی میں اکھنڈ بھارت کے ایک نئے نقشے پر صرف پاکستان نے ہی نہیں بلکہ نیپال اور بنگلہ دیش کی حکومتوں نے بھی بجا طور پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ان کے نزدیک یہ نیا نقشہ جو بھارت کی پارلیمنٹ کی نئی بلڈنگ میں آویزاں کیا گیا ہے مودی سرکار کی توسیع پسندانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو ان ممالک کے لئے قطعاً قابل قبول نہیں کہ جن کو اس نقشے میں اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے‘ ادھر ہمالیہ میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ بدستور موجود ہے اور چونکہ یہ دونوں ممالک اٹیمی قوتیں ہیں جب تک یہ تنازعہ حل نہ ہوگا ان میں جھڑپ سے یہ خطہ مکمل تباہی اور بربادی کے دھانے پہنچ سکتا ہے امریکہ بھارت کو چین کے خلاف بطور فرنٹ سٹیٹ استعمال کر رہا ہے بالکل اسی طرح کہ جس طرح اس نے یوکرائن کو روس کے خلاف استعمال کیا ہے کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور نہ ہی سیاست میں کوئی لفظ آخر ہوتا ہے زیادہ عرصے کی بات نہیں جب بھارت سوویت یونین کے گن گاتا تھا اور آج وہی بھارت روس کے ازلی دشمن امریکہ کی گود میں جا بیٹھاہے ایک عرصے تک روس اور چین آ پس میں سردمہری کا شکار تھے باوجود اس حقیقت کے کہ دونوں نظریاتی طور پر کمیونسٹ ممالک تھے ‘آج وہ یک جان دو قالب دکھائی دے رہے ہیں اور ہماری نظر میں ان دو ممالک کے ایک پیج پر آ جانے کو اس صدی کی سب سے بڑی سیاسی تبدیلی قرار دیا جا سکتا ہے۔

Leave a Reply