Imran khan ki PTI aur bharti PTI mn farq?

عمران خان کی PTI اور بھارتی PTI میں فرق؟




جب 90ء کی دہائی کے آغاز تک کوئی کہتا تھا کہ PTI نے یہ بات کہی ہے تو فوراً سمجھ میں آجاتا تھا کہ ضرور پاکستان کے خلاف کچھ کہا سنا گیا ہوگا۔ اُس وقت PTI صرف بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مختصر نام کے طور پر پہچانی جاتی تھی۔ PTI پاکستان تحریک انصاف کا چھوٹا نام بھی ہے۔ بھارتی نیوز ایجنسی PTI اور پاکستان تحریک انصاف PTI کے مختصر نام تو ایک جیسے ہیں ہی، اِن کا ٹارگٹ بھی شاید دانستہ یا نادانستہ طور پر ایک ہی ہو جاتا ہے۔ تمام تر سیاسی وابستگیوں سے علیحدہ ہوکر سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ بھارتی نیوز ایجنسی PTI اپنے زہر آلود پراپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ عمران خان کی PTI بھی اپنے بدتہذیب کارکنوں کے ذریعے پاکستان کے معاشرتی اور ثقافتی امیج کو بری طرح نقصان پہنچاتی رہی ہے اور اب بھی کوشش کررہی ہے۔ اس جماعت کے کارکن اتنے قصور وار نہیں کیونکہ اُن کو سیاست کا سبق ہی ایسے دیا گیا ہے۔ اُن کے رہنما عمران خان نے پاکستانی سیاست میں بازاری زبان اور لاری اڈہ کلچر کی وہ بنیاد رکھی جسے ختم کرنا اب خود عمران خان کے بس میں بھی نہیں رہا۔ بدتہذیبی اور بدتمیزی کے خمیر سے شروع ہونے والی یہ جماعت 9مئی 2023ء کو دہشت گردی کی کارروائیوں تک جاپہنچی۔ ہمارے ہاں سیاست میں جو گھٹیا اور غلط رواج شروع ہو جائے وہ رکتا نہیں بلکہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ 70ء کی دہائی میں ہڑتالوں اور جلوسوں کا رواج پڑا جو اِس وقت بدترین شکل میں موجود ہے۔ 80ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں سیاست میں روپے پیسے کو لایا گیا جو اَب سیاست دانوں کی جان، آن اور شان بن چکا ہے۔ 90ء کی دہائی میں حکومتوں کے دوران ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح سامنے آئی، جھوٹ اور ظلم کو سچ اور مظلومیت میں بدلنا شروع کیا گیا۔ پرویز مشرف بدمعاشی اور سینہ زوری کے ماہر قرار پائے۔ اِن سب ادوار میں جو داغی اور گندے بیج پاکستانی سیاست میں بوئے گئے، عمران خان اُن سب سے بازی لے گئے۔ اپنے اقتدار کے لالچ میں پاکستان کو پہنچنے والے اربوں روپے کے معاشی نقصان کی انہیں کوئی پروا نہیں ہوتی۔ عمران خان کی PTI اس حد تک خودغرض اور مفاد پرست ہے کہ اسے پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کی بھی پروا نہیں ہوتی۔ ان کی دہشت گردانہ ذہنیت والا رویہ 9مئی 2023ء کو تو کھل کر سامنے آگیا لیکن دراصل عمران خان کی قیادت میں بننے والی PTI شروع سے ہی ایسی تھی۔ اس کی ایک مثال 26 اکتوبر 2014ء کو لندن میں عمران خان والی PTI کی طرف سے کی جانے والی شرمناک اور افسوس ناک حرکتوں سے دی جاسکتی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جب 26 اکتوبر 2014ء کو بھارتی جارحیت کے خلاف اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے حق میں لندن میں کئے جانے والے ملین مارچ میں بلاول بھٹو سٹیج پر آئے تو کچھ افراد نے انہیں بوتلیں، انڈے اور ٹماٹر مارنا شروع کر دیئے۔ حب الوطنی کی آڑ میں پاکستان کو شرمندہ کرنے والا یہ بدتہذیب گروہ بھارتی نیوز ایجنسی PTI کا نہیں بلکہ عمران خان کی PTI کے افراد کا تھا جس کی قیادت عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کر رہے تھے۔ یہ وہی حسان نیازی ہے جو 9مئی 2023ء والے دن لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کا مبینہ مرکزی ملزم ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کے حق میں نکالے جانے والے لندن کے ملین مارچ میں ہونے والی مذکورہ گڑبڑ بھی اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ یہ بھی 9 مئی 2023ء کی طرح عمران خان والی PTI نے منصوبہ بناکر پہلے سے تیار کی کوئی تھی کیونکہ وہاں ملین مارچ کے اردگرد بوتلوں، انڈوں اور ٹماٹروں کی ریڑھیاں نہیں لگی ہوئی تھیں جن سے PTI کے کارکنوں نے بوتلیں، انڈے اور ٹماٹر اٹھا کر اچانک بلاول بھٹو پر پھینکنا شروع کر دیئے ہوں۔ PTI کے کارکنوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا لیکن انہوں نے پاکستان اور کشمیر کاز کو چھری گھونپنے کی کوشش کی۔ وہ ایسے کہ اُن کی اس کارروائی سے کشمیریوں کے حق میں مذکورہ ملین مارچ ڈسٹرب ہوگیا، دنیا کو جگ ہنسائی کا موقع مل گیا اور خاص طور پر بھارتی میڈیا نے پاکستان اور کشمیریوں کو بہت ڈاؤن کیا اور طعنے دیئے۔ مثلاً بھارتی سوشل میڈیا پر ایک اہم ترین ویب سائٹ ”ڈیفنس فورم انڈیا“ میں فوری پوسٹ کیا گیا کہ ”کشمیر میں بھارتی جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف لندن کی گلیوں میں ملین مارچ کرنے کی پاکستانی کوشش یادگار ناکامی سے دوچار ہوئی“۔ اس ویب سائٹ نے پراپیگنڈے کا سہارا لیتے ہوئے فیک نیوز چلائی کہ ”گنتی کے سات ہندسوں یعنی دس لاکھ افراد کے مجمعے کے بجائے وہاں پر موجود افراد گنتی کے پانچ ہندسوں یعنی دس ہزار سے بھی کم تھے“۔ اس ویب سائٹ نے مزید کہا کہ ”دس لاکھ کے مجمعے کو اکٹھا کرنے کا پاکستانی مقصد تھا کہ برطانوی حکومت کو درخواست جمع کرائی جائے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے برطانوی حکومت بھارت پر دباؤ ڈالے مگر صرف چند ہزار مرد، حجاب والی خواتین اور بچے ٹریفلگر سکوائر میں پولیس بیریکیڈ کے پیچھے کھڑے ہوکر نعرے لگاتے رہے۔ اُن کے ہاتھوں میں پاکستانی جھنڈے تھے“۔ اس ویب سائٹ نے پاکستانیوں کو شرمندہ کرنے کے لیے مزید جھوٹ بولا کہ ”لندن کا یہ وہی چوک تھا جہاں چند روز قبل دیوالی کے تفریحی پروگرام کے لیے سٹیج سجایا گیا تھا۔ اُس وقت یہ پورا علاقہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا مگر کشمیریوں کے ملین مارچ میں بھارتی اندازے کے مطابق بمشکل دو ہزار افراد شامل تھے“۔ اس بھارتی ویب سائٹ نے عمران خان کی PTI کے کارکنوں کے کارنامے کو فخریہ طور پر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ”پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو مختصر وقت کے لیے اس مارچ میں شامل ہوئے۔ انہیں بوتلیں، انڈے اور ٹماٹرمارے گئے“۔ مذکورہ بھارتی ویب سائٹ نے عمران خان والی PTI کے کارکنوں کے کارنامے کے بعد پاکستانی میڈیا کے بارے میں بھی جھوٹ بولتے ہوئے لکھا کہ ”پاکستانی نجی ٹی وی چینل جیو نے رپورٹ دی کہ بھارتی ایجنٹوں نے بلاول بھٹو کو مارچ میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش کی۔ ایک اور پاکستانی نجی ٹی وی چینل اے آر وائی نے اس ایشوکی خبر ہی نہیں دی۔ اس احتجاجی مارچ کے اختتام کے بعد بہت دیر تک بھی تین لیڈنگ پاکستانی اخبارات ڈان، دی نیوز اور ایکسپریس ٹریبیون نے مذکورہ واقعے کی کوئی خبر اپنی ویب سائٹس پر شائع نہیں کی۔ آصفہ بھٹو نے بھی اپنے بھائی بلاول بھٹو کے ساتھ ہونے والی اس بد سلوکی کو بھارتی ایجنٹوں کی کارروائی قرار دیا“ جبکہ پاکستانی میڈیا کے حوالے سے بھارتی ویب سائٹ کا یہ بیان مکمل طور پر غلط ہے کیونکہ مذکورہ واقعے کے اگلے دن ہی پاکستانی میڈیا میں یہ خبریں نمایاں طور پر موجود تھیں۔ البتہ آصفہ بھٹو نے اس واقعے کے بارے میں درست کہا تھا کہ یہ بھارتی ایجنٹوں کی کارروائی ہے کیونکہ عمران خان والی PTI والے پاکستانیت کا لبادہ اوڑھے دراصل بھارتی ایجنٹوں کا ہی کام کررہے تھے۔ اب آخر میں محترم قارئین خود سوچیں کہ مذکورہ بھارتی ویب سائٹ کی خبر کو یاد کرکے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اِس ملین مارچ میں ہونے والی ڈسٹربنس سے بھارت نے کتنا فائدہ اٹھایا ہوگا۔ اس واقعے کی ذمہ داری کے طور پر لندن کی مقامی پولیس نے عمران خان کے بھانجے حسان نیازی کو اُس وقت تھوڑی دیر کے لیے حراست میں بھی لیا تھا۔ اگر بلاول بھٹو تحریک انصاف والوں کے لیے ناپسندیدہ تھے توتب بھی ان سے ایسی مخالفت کرنی چاہئے تھی کہ پاکستان اور کشمیریوں کے دشمنوں کو فائدہ نہ پہنچتا۔ کیا دنیا کے سامنے پاکستان اور کشمیریوں کوتماشا بنانا ضروری تھا؟ لیکن اِن سب باتوں سے عمران خان اور ان کی جماعت PTI کو کیا غرض؟ وہ تو صرف اپنے اقتدار کے لالچ میں دیوانے ہیں۔ اس پورے تجزیئے کے بعد کیا یہ سوال نہیں پوچھنا چاہئے کہ بھارتی نیوز ایجنسی PTI اور عمران خان کی PTI میں کوئی فرق ہے؟

Leave a Reply