Dusray admi ka frar!

!دوسرے آدمی کا فرار




جمال دین رات کھانے کے بعد ٹھیک ٹھاک سویا تھا۔ کمرے کاٹمپریچر بھی مناسب تھا۔ نیند میں خلل کا کوئی اور سبب بھی نہیں تھا۔آدھی رات کواچانک اس کی آنکھ کھلی تو طبیعت بوجھل تھی۔اس کی کھال میں غیر معمولی تنائو تھا ۔ ٹھس ٹھسا کر جیسے کسی نے بھوسا بھر دیا ہو۔ جوڑ بندھوں پر سلائی جیسے کھنچ کر ادھڑ نے کو ہو۔ جمال دین نے ہاتھ اپنے جسم پر پھیرا۔ جسم تو صحیح سلامت تھا۔ جمال دین نے اپنے ہاتھوں کے پوروں پر ایک نظر ڈالی۔ ناخن اپنی جگہ موجود تھے۔ جمال دین بستر سے اٹھنا چاہتا تھا۔اس کا جسم مگر منوں وزنی تھا۔بہت جلداسے صورت حال کا ادراک ہو گیا۔ اسے پتا چل گیا کہ اُس کی کھال کے اندراس وقت ایک نہیں دو آدمی تھے۔پہلا آدمی اُسے کہہ رہا تھا ،’ رات ابھی باقی ہے۔ دن کا اجالا پھیل جانے دو۔ ابھی پڑے رہو۔ بستر میں ہی پڑے رہو‘۔دوسرا آدمی مگر مضطرب تھا۔بے چینی سے بولا،’اٹھو، اٹھو، دیر ہو رہی ہے۔ زندگی کے سفر میں یہ موڑصدیوں بعد آتے ہیں۔ یہاں تاخیر درست نہیں۔ تو پھر کیا تم بزدل ہو؟ ہاں تم بزدل ہو۔ ڈرپوک۔ مڈل کلاس بابو۔ برگر۔ تتلیاں۔ دن کا اجالا اچھی طرح پھیل جائے توکیا جبھی بستر سے نکلوگے؟ دن کو تو بالآخرنکلنا ہی ہے۔مگراس میںسوئے پڑوں کا کیا کمال؟تو کیاتم سوئے پڑے رہو گے؟‘ جمال دین اب پوری طرح بیدار اورکے جسم کے اندردونوں آدمی باہم بر سرِ پیکار تھے۔پہلا آدمی اب بھی جمال دین کو سمجھا نے بجھانے میں مصروف تھا ۔’ہوش کے ناخن لو۔ ہر کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے۔ یہ وقت اس کام کا نہیں ۔ یہ کڑا وقت ہے۔ خاموشی سے بستر میں پڑے رہو۔‘ یہ سننا تھا کہ د وسرا آدمی جمال دین کو کوسنے لگا۔’یہ ہے تم جیسوں کا دوغلا پن ۔ چاہتے ہو کہ حالات بدلیں۔نظام بدلے۔ چاہتے ہو کہ دوسرے لوگ تمہاری خواہشات کی تسکین کے لئے سڑکوں پر نکلیں۔ دھکے کھائیں۔لاٹھیاں کھائیں۔ ہڈیاں تڑوائیں۔عورتیں سڑکوں پر دیوانہ وار بھاگیں۔ مرد نہتی عورتوں کے پیچھے بھاگیں۔گرا لیں۔ گھسیٹیں۔گرائی جانے والی عورتوں کے مر د پھرگرانے والے مردوں کے سامنے ہاتھ جوڑیں۔ بچے روئیں۔بوڑھے گڑگڑائیں۔ اور تم لوگ سکون کے ساتھ گھروں میں بیٹھو رہو۔یہ سب صرف اپنے اپنے ٹی وی کی سکرینوں پر دیکھو۔ اپنی اپنی گود میں پڑے موبائل فونوں سے کھیلتے رہو‘۔ جمال دین کے اندر دو آدمیوں میں کشمکش اب عروج پر تھی۔ ایک بار پھر پہلے آدمی کی باری تھی،’جمال دین، میںاب بھی کہتا ہوں ، ہوش کے ناخن لو۔ گھر میں تمہاری بیوی اکیلی ہوتی ہے۔ تمہاری بیٹی یونیورسٹی جاتی ہے۔دونوں کو تمہاری ضرورت ہے‘۔ وقفہ۔ خاموشی۔پہلا آدمی ایک توقف کے بعدپھر سے بولا’ تم مڈل کلاس طبقے کے پڑھے لکھے فرد ہو۔ تمہارا کیا کام ان جھمیلوں سے؟ کیا تم پولیس سے آنکھ مچولی کھیل سکتے ہو؟ آنسو گیس کا سامنا کر سکتے ہو؟ یاد نہیںتمہیں، پچھلی گرمیوں میں تم اور تمہارے بہت سارے پر جوش ہمسائے پرچم اٹھائے ،رنگ برنگے کپڑے پہنے، پانی کی بوتلیں ہاتھوں میں لئے، اپنی اپنی گاڑیوں میں ترانے گاتے ہوئے گھروں سے نکلے تھے۔ نہر کے پل پر پہلے ہی ناکے پرمگر دھرلئے گئے تھے۔ کیا حشر کیا تھا لٹھ برداروں نے تمہاری گاڑیوںکا۔ گاڑیاں نہیں عمر بھر کی کمائی تھی، تم میں سے ہر ایک کی۔ایک لٹھ بردار جتھے میں ہی گھری تمہاری گاڑی کے اندر تمہاری بیوی سر گھٹنوں میں دیئے ایک ہی بات دہرائے جارہی تھی۔ ’ہمیں گھر جانے دو، ہمیں گھر جانے دو‘۔ جمال دین کی کھال میں گھسے دونوں آدمی مسلسل بول رہے تھے۔پہلے آدمی نے پوچھا،’کیا تمہاری پشت پر کوئی سیاسی جماعت ہے ؟ صحافیوں یا وکیلوں کی کوئی تنظیم ؟ کوئی مغربی طاقت؟ انسانی حقوق کی کوئی عالمی تنظیم؟ اُن کے مقامی کارندے؟ ‘ دوسرا آدمی بولا، ’عدالتیں ہمارے ساتھ ہیں۔‘ پہلے آدمی نے زور سے قہقہہ لگایا۔ کچھ دیر کے لئے جمال دین کے اندر خاموشی چھا گئی۔ اچانک جمال دین کو نہ جانے کیا ہوا۔ اُٹھا اور فیس بک پر دھڑا دھڑ کچھ لکھنے لگا۔کچھ تودوسرے آدمی نے جو اودھم مچا رکھا تھا، کچھ اُس کی اپنی رگوں میں صدیوں سے بھرا غصہ۔ جو جی میں آیا لکھ ڈالا۔واپس ، نڈھال ہو کر بستر پر گر پڑا۔ دو آدمی بھی جیسے کچھ دیر کے لئے دُبک گئے ہوں۔اب جمال دین کے دل میں وسوسے سر اٹھانے لگے۔ اندیشہ ہائے دور درازنے اُ سے گھیر لیا۔لیکن پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کا وقت اب گزر چکا تھا۔ اب تک اس کی پوسٹ پر کئی دوست اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہوں گے۔ جمال دین اپنی بیوی کے پہلو میں لیٹابیڈ روم کی نیم تاریکی میں روں روں کرتے پنکھے کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ نیند کا دور دورتک نام و نشان نہیں تھا۔ برابر والے کمرے میں اس کی بیٹی ضرور اب بھی جاگ رہی ہوگی۔یونیورسٹی میں اس کے امتحانات جاری تھے۔ جمال دین کو عجیب افسردگی کا احساس ہوا۔پھر جیسے جمال دین زمان و مکان کے احساس سے بے نیاز ہو گیا ہو۔اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ گھر کی گھنٹی زور سے بجی۔ ٹرن ، ٹرررررررن ، ٹررررررن ۔وقفہ۔ اور پھر وہی لمبی ٹرن ٹررررررن۔ دو آدمیوں کو اپنی کھال میں اٹھائے جمال دین گرتا پڑتا کسی نہ کسی طرح ٹی وی لائونج میںپہنچ گیا۔ دیوار کی گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی۔باہر گھنٹی ایک بار پھر بجی۔ وقفہ۔خاموشی۔ گھر کی دیواریںپھلانگ کر لان میں کودنے کی آوازیں۔ جمال دین کی کنپٹیاں پھڑپھڑانے لگیں۔تمہاری یہ جرات؟فرطِ جذبات میں وہ اپنا پستول لینے کے لئے بیڈ روم کی طرف لپکا۔اندر دیکھا تو بستر پرا س کی بیوی اکڑوں بیٹھی ،سر گھٹنوں میں دیئے بڑبڑائے جارہی تھی۔ ’ ہمیں گھر جانے دو، ہمیں گھر جانے دو۔‘ جمال دین تیزی کے ساتھ واپس مڑا۔ اپنی بیٹی کے کمرے کے پاس سے گزرا تو ایک بار پھر اُداسی نے اسے گھیر لیا۔ ٹی وی لائونج میںواپس آکر وہ کمرے کے بیچ میں کھڑا ہو گیا۔ایک نظر اس نے اپنے گھر میں قرینے سے سجے سامان پر ڈالی۔ ایک ایک شے برسوں تنکا تنکا جوڑ کر بنائی گئی تھی۔دونوں آدمی اب بھی اس کی کھال کے اندر موجود تھے۔دونوں کے بیچ کش مکش انتہا پر تھی۔ جمال دین کی رگوں میں خون کھولنے لگا۔ اچانک اسے اگلے زمانوں کے بادشاہ یاد آئے۔ اپنے مخالفوں کو جو جانوروں کی کھالوں میں زندہ سلوا دیتے تھے۔ اچانک اُسے محسوس ہوا جیسے اس کی رگوں میں صدیوں سے بھرا غصہ اچانک اس کی کھال کے پوروں سے بھاپ بن کر اُڑنے لگا ہے۔ لان میں کودنے والے اب اس کے گھر کے مین ڈور کو پیٹ رہے تھے۔اچانک اس کی کھال ڈھیلی پڑنے لگی۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ دوسرا آدمی اُس کے جسم سے نکل چکا ہے۔ ’دھڑ دھڑ دھڑ ۔جمال دین دروازہ کھولو۔ دیکھو ہمیں سب پتا ہے اندر کون کون ہے۔ دروازہ کھول دو‘۔ ’کھول رہاہے ،بھائی، کھول رہا ہے‘۔ پہلے آدمی نے جواب دیا۔ بڑبڑاتے ہوئے جمال دین نے دروازہ کھول دیا۔

Leave a Reply