Kam sy kam ujrat mein izafa, aek saib faisla

کم سے کم اجرت میں اضافہ، ایک صائب فیصلہ 




وطن عزیز کو جس قسم کے نا مساعد مالی حالات کا سامنا ہے ان کے پیش نظر حکومت کیلئے یہ جان جوکھوں کا کام تھا کہ وہ قوم کو امسال یعنی سال 2023_2024 کیلے ایسا بجٹ دے کہ جس میں عوام کے ہر طبقے کو مناسب ریلیف بھی ملے اور آئی ایم ایف کے تقاضے بھی کما حقہ پورے ہوں۔ وزیراعظم نے بجٹ اجلاس سے پہلے گزشتہ جمعہ کے دن وقافی کابینہ کو ملکی معیشت کے بارے میں جو حقائق بتلائے اور متوازن وفاقی بجٹ بنانے کے سلسلے درپیش مشکلات کا ذکر کیاوہ کافی حد تک زمینی حقائق پر مبنی تھے انہوں نے بجا طور پر کہا کہ مشکل کی گھڑی میں چین اور سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے جس کے لئے وہ اور پوری پاکستانی قوم ان دو ممالک کے ازحد شکر گزار ہیں۔وقت بہر حال آ گیا ہے کہ اب ہمارے ارباب بست و کشاد اس قسم کی معاشی پالیسیوں کو مرتب کرنا شروع کر دیں کہ جن سے پاکستان کا بیرونی قرضوں پر انحصار ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے ختم ہو جائے۔ اور آخرہم کیوں آخر ایسا نہیں کر سکتے وطن عزیز میں ایسے معاشی اور مالی ماہرین کی کوئی کمی بالکل نہیں کہ جو غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑانے کیلئے متبادل آ پشنز پیش کر سکیں ۔محنت کش کی کم سے کم اجرت 30 ہزار روپے کرنے کا حکومتی فیصلہ ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے چونکہ حکومت کیلئے اب دن بہ دن مشکل ہو رہا ہے کہ وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کا ہر ماہ بھا ری بھر کم پنشن کا بل ادا کر سکے لہٰذا پنشن فنڈ کا قیام بھی ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے جس میں حکومت اور پینشنرز دونوں کا فائدہ ہے۔وفاقی بجٹ میں صحافیوں کیلے ہیلتھ انشورنس کا اجراءایک اچھا فیصلہ ہے پر اس ضمن میں بہترہوگا اگر اس قسم کی طبی سہولیات ملک کے ہر فرد کیلے فراہم کر دی جائیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمارے ارباب بست و کشاد صحت عامہ کے شعبے کو ان خطوط پر استوار کریں کہ جن خطوط پر انگلستان کی نیشنل ہیلتھ سروس کام کر رہی تاکہ بلا کسی امتیاز و تمیز معاشرے کا ہر فرد مفت طبی سہولیات سے برابر کا استفادہ کر سکے۔ ارباب اقتدار کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر مالی سال کیلئے صرف ایک ہی سالانہ بجٹ پر اکتفا کیا کریں اور بار بار سال بھر میں منی بجٹوں کو پیش کرنے کی روایت سے احتراز کریں کہ اس سے عام آدمی کو فائدہ کے بجاے نقصان پہنچتا ہے اور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔وفاقی بجٹ میں غیر ملکی خادمہ یا ملازم رکھنے والوں پر 2لاکھ روپے فیس رکھ دی گئی ہے جو غیر ملکی کو ویزہ کے اجرا کے موقع پر ویزالینے والی ایجنسی یا فرد کو ادا کرنا ہوگی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں غیر ملکی مردانہ اور زنانہ خدمتگاروںکو گھریلو کام کاج اور خاص طور پر بچوں کی دیکھ بھال کے واسطے ترجیح دیتے ہیں۔

Leave a Reply