Mashi bahali ki umeedein aur budget

معاشی بحالی کی امیدیں اور بجٹ




حکومت اور اس کے اتحادیوں نے وفاقی بجٹ 2023-24ء کو نامساعد حالات میں بہترین قراردیدیا ہے۔جو حلقے سرکاری خزانے کی حالت سے واقف ہیں وہ حکومت کی اعلان کردہ کئی سکیموں کو نمائشی اعلانات قرار دے رہے ہیں۔ حکومت نے بجٹ خسارہ 6ہزار ارب روپے ظاہر کیا ہے۔یہ چھ ہزار ارب روپے اگر نہیں ملتے تو سوال پیدا ہو گا ہے کہ بجٹ سکیموں پر عملدرآمد کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔آئی ایم ایف پی ڈی ایم حکومت کو مالیاتی ڈسپلن کے ساتھ آئین اور قانون کی عملداری یقینی بنانے کی تاکید کر رہا ہے ۔ان حالات میں حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 32ہزار مقرر کی گئی ہے‘ ای او بی آئی پنشن 10ہزار روپے کی گئی ہے‘ گریڈ ایک سے سولہ تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 35فیصد اور پنشن میں 17.5فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔خوردنی تیل اور سولر پینل سستے ہوئے ہیں۔زرعی مشینری‘ معیاری بیجوں اور پودوں کی درآمد پر ٹیکس ختم کئے گئے ہیں۔ان سب کا فائدہ ہو گا۔سرکاری ملازمین کی زندگی کچھ آسان ہو گی۔حکومت اس پر داد کی مستحق ہے۔ حکومت سے آئی ایم ایف نے مطالبہ کر رکھا ہے کہ ٹیکس محاصل 6000ارب روپے سے بڑھا کر 9200ارب روپے کئے جائیں ۔اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے نان فائلر افراد کے بینک سے رقم نکلوانے پر 0.6فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ 200ارب کے اضافی ٹیکسز عائد کئے جا رہے ہیں ۔حکومت نے معاشی ترقی کی شرح 0.29فیصد سے بڑھا کر 3.5فیصد تک لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ مہنگائی کی شرح جو سرکار ی اعداد و شمار میں 38فیصد جبکہ مارکیٹ سروے میں 48فیصد بتائی جا رہی ہے اسے حکومت 21فیصد کی سطح پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بجٹ پر دو طرح سے رائے سامنے آتی رہی ہے۔اپوزیشن حلقے ہمیشہ بجٹ کو ناقص بتاتے ہیں۔حکومت ہمیشہ یہی کہے گی کہ نامساعد حالات میں اس سے زیادہ عوام کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا تھا۔معاشی ماہرین اور تاجر حلقے بھی اپنی سیاسی وابستگی کی بنیاد پر بجٹ کا تجزیہ کرتے ہیں۔یوں بجٹ ایک ایسی دستاویز کے طور پر سامنے آتی ہے جس کی ہر سکیم سیاسی فائدے یا نقصان کے حوالے سے زیر بحث آئی ہے۔اس متواتر جاری رہنے والے رجحان نے بجٹ کی تیاری اور اس کے جائزے کو ریاست اور عوام کے مفاد کی بجائے جماعتی مفاد کی دستاویز تک محدود کر دیا ہے۔اس سے بجٹ کی تیاری کے دوران حکومتی ترجیحات پورے سماج کی ترقی کی بجائے چند شعبوں کی سرپرستی تک محدود ہو گئیں۔ ایک وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس طرح کی بجٹ سازی نے معاشرے میں طبقاتی امتیاز بڑھایا۔جو لوگ پہلے سے وسائل پر قابض تھے وہ مزید دولت مند اور بارسوخ ہوتے گئے۔جو محروم اور پسماندہ تھے انہیں معمولی سکیموں سے بہلایا جاتا رہا۔ ملک کے سامنے زرمبادلہ کی کمی کا مسئلہ ہے‘ فی کس آمدنی خطے کے تمام ممالک کی نسبت کم ہو چکی ہے۔برآمدات ناہونے کے برابر ہیں‘ زرعی ملک ہوتے ہوئے ملک گندم‘ پنیر‘ دالیں‘ تیل اور مصالحہ جات درآمد کرتا ہے۔زرعی پیداوار‘ سبزیاں پھل اور پھول پروسیسنگ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ضائع ہو جاتے ہیں‘ ان کو محفوظ رکھنے کا انتظام تسلی بخش نہیں۔ ملک میں چھوٹی گاڑیوں کی مانگ ہے لیکن حکومتیں غیر ملکی کمپنیوں کو مہنگی کاریں فروخت کرنے سے روک نہیں سکی۔ پورے ملک میں بسیں ہیں‘ ریلوے کا اچھا نظام ہے نہ اچھی فضائی سروس۔ان حالات میں لوگ کس طرح سفر کرتے ہیں یہ وہی بتا سکتے ہیں جن پر بیتتی ہے۔ پورے بجٹ میں اس سلسلے میں کوئی سکیم دکھائی نہیں دیتی۔1300سی سی سے بڑی گاڑیوں پر ٹیکس کیپ ختم کر دیا گیا ہے جس کا فائدہ عام آدمی کو کتنا ہو گا؟ بجلی کی کمی اور مہنگی توانائی نے اشیاء کی پیداواری لاگت بڑھا دی ہے۔مہنگی لیبر اور مہنگی توانائی کے بعد کوئی یہ توقع کیسے کر سکتا ہے کہ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی۔ ان حالات میں خود اپنے کاروباری افراد دوسرے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں‘ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ میں ایسی مراعات کو شامل کیا جائے جس سے اشیا کی پیداواری لاگت کم ہو۔ایسی قابل عمل منصوبہ بندی کر لی گئی تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہونے کا فائدہ پاکستانی برآمدات میں اضافے کی شکل میں مل سکتا ہے۔اس کا دوسرا پہلو یہ ہو گا کہ سٹاک مارکیٹ سنبھلنے لگے گی۔ بجٹ میں عام انتخابات کے لئے 48ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔پاکستان کا بحران معاشی نوع کا ضرور ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ سیاسی ہے۔ملک بھر میں سب سے زیادہ مقبول جماعت اور اس کے حامی نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔حکومت جب سیاسی انتقام پر مبنی کارروائیاں کرتی ہے معاشی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔جب مفاہمت اور مذاکرات کی باتیں ہوتی ہیں سٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر پر مثبت اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔بجٹ سے بہت زیادہ امید اس لئے وابستہ نہیں کی جا سکتی کہ اصل مسئلہ سیاسی ہے۔ایک سال قبل معاشی دباو کے باوجود حالات عام آدمی کے لئے اتنے برے نہیں تھے۔حکومت اگر فوری انتخابات کا اعلان کر دے تو کئی معاشی اشاریے منفی سے مثبت ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے‘ الیکشن میں جتنی تاخیر ہو گی اور عوامی رائے کو جتنا نظرانداز کیا جائے گا معیشت دبائو کا شکار ہوتی چلی جائے گی۔

Leave a Reply