Naye imrani mahidy ki zarurat ?

نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت؟




گزرے وقتوں میں امیر کبیر لوگ گرمیوں میں مری نتھیا گلی اور سوات کا رخ کرتے تھے۔ سب سے اونچا طبقہ مری اوردوسرے پہاڑی پر فضا مقامات پر اپنے گھروں سمر ہاؤسز میں رہتا تھا ۔ ان امراءکے گھروں میں مہمانوں کی آمد اور تواضع کا سلسلہ پوری گرمیاں جاری رہتا۔ جاگیرداروں، صنعتکاروں سے تھوڑا کم درجے کا طبقہ جس میں تاجر، زمیندار اور اعلیٰ افسران وغیرہ شامل ہوتےتھے دوستوں کی رہائشگاہوں، کرائے کے مکانات و فلیٹس سرکاری ریسٹ ہاؤسز اور لاجز میں گرمیوں کی چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یونیورسٹیوں کالجوں کے طالب علموں کیلئے سمر کیمپس کا انعقاد ہوتا جبکہ مختلف گروپس میں نوجوان لڑکے لڑکیاں شمالی علاقوں میں پہنچتے جہاں تفریح اور مطالعاتی دورے ساتھ ساتھ چلتے۔ متوسط اور غریب طبقے کے افراد اپنی محدود آمدنی سے کچھ نہ کچھ بچا کر چند دن کیلئے پہاڑی مقامات کی سیر کو نکلتے، زیادہ تر ان کا قیام مری میں ہوتا جہاں درمیانے اور نچلے درجے کے بے شمار ہوٹل جہاں باتھ روم اور پانی کی ہمیشہ قلت ہوتی ان کے منتظر ہوتے تھے اور ان ہوٹلوںمیں عموماً ایک کمرے میں پورا خاندان یا درجن بھر دوست سما جاتے تھے۔ ہائی ویز، سڑکوں کی تعمیر اور دوسری سہولتوں کی فراہمی سے شمال کے دور دراز علاقے بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گئے اور لوگ بڑی تعداد میں نیلم ویلی، ناران، کاغان، گلگت بلتستان، چترال وغیرہ جانا شروع ہوگئے جبکہ غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں شمالی علاقہ جات کی سیر کو جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑی چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان کے شمالی علاقوں میں ہیں جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو بھی شامل ہے اور سینکڑوں کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے دنیا بھر سے پاکستان آتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کا طرز زندگی، رتبہ اور حالات بھی تبدیل ہوگئے ، امیر لوگ سیر و تفریح کیلئے بیرون ملک جانے لگے اور پھر ان لوگوں کی اکثریت نے ان دور دراز ملکوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔ متوسط طبقے کے لوگ فکرِ معاش اور دوسرے مسائل میں اسقدر گھر گئے کہ انکا شمالی علاقوں کا سیاحتی دورہ چند دن تک محدود ہوگیا اور وہ بھی کسی درمیانے ہوٹل یا سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کمرہ ملنے سے مشروط تھا۔ آجکل بھی بیرون ممالک سے آئے پاکستانیوں اور صاحب ثروت پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایڈونچر کے طور پر دور دراز پہاڑی علاقوں میں بڑی تعداد میں جا رہی ہے اور ان علاقوں کے قدرتی حسن اور مقامی لوگوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ غریب لوگ جو دو وقت کی روٹی، علاج معالجے، بچوں کے تعلیمی اخراجات اور آنے والے متوقع اور غیر متوقع حالات سے پریشان ہیں ان کیلئے مری یا دوسرے سیاحتی مقامات کی سیر خواب بن کر رہ گیا ہے۔ چند مرلوں کے تنگ و تاریک گھروں کے مقیم لوگوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ مہینے بھر کا آٹا، گھی، چینی اور سبزی دال لینے کے بعد بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کرنے کے پیسے نہیں بچتے اوپر سے گیس کی قلت، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت اور خام مال کی عدم دستیابی نے ملک کی پچاس فیصد سے زائد انڈسٹری بند کردی ہے جس سے بیروزگاری میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے۔ واضح رہے ایک مزدورکے بیروزگار ہونے کا مطلب ایک پورے خاندان کا روزگار ختم ہونا ہے۔ تعجب کا مقام ہے ہماری اشرافیہ خصوصاً سیاسی لیڈر شپ چاہے وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں اسے ان دگرگوں حالات کا ادراک نہیں اور تمام فریق اس کوشش میں ہیں کہ آئندہ بھی اقتدار ان کے ہاتھ میں رہے۔ حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال عوامی مسائل سے پہلو تہی اور میرٹ کو پس پشت ڈال کر کرپٹ لوگوں کو پرکشش عہدوں پر لگانے کا عمل گزشتہ دور حکومت کی طرح اسی شدومد سے جاری ہے۔ ہمارے ایک سابق وزیر اعظم کو مری گلیات کے حسین نظاروں سے بہت رغبت تھی، انھوں نے اپنے دور حکومت میں بطور وزیر اعظم تین صوبائی دارلحکومتوں کے شاید اتنے دورے نہ کئے ہوں جتنا وقت انھوں نے مری کے پرفضا پہاڑی مقام پر اپنی نجی رہائش گاہ میں گزارا، ماضی قریب میں اقتدار سے فارغ ہونے والے ایک سابق وزیر اعظم کا بیان نظر سے گزرا جو ملکی مسائل اور اپنے کارکنوں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرنے کی بجائے اپنے بیرون ملک مقیم بچوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات جانے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے۔ اقتدار کیلئے کوشاں سیاسی رہنماؤں کی بے حسی و بے رحمی کے دور میں جہاں روایات دم توڑ رہی ہیں اور انسانیت سسک رہی ہے ایک نئے سماجی و عمرانی معاہدے کی اشد ضرورت ہے جہاں نئی قوتیں نئے چہرے لوگوں کی حالت زار کا اندازہ لگاتے ہوئے ان کے دکھوں کا مداوا کرسکیں۔

Leave a Reply