Pakistan ko istehkam ki zarurat!!!!!

!!!!!!پاکستان کو استحکام کی ضرورت

جہانگیر خان ترین کی سیاسی جماعت کے نام کو دیکھا جائے تو بنیادی طور پر یہ ایک پیغام ہے۔ اس نئی سیاسی جماعت جس میں کئی پرانے اور تجربہ کار سیاست دان شامل ہوئے ہیں۔ یہ سب پاکستان کے استحکام کا عزم لے کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اگر ملک نے آگے بڑھنا ہے تو پھر ہمیں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ جب تک سیاسی استحکام نہیں ہو گا اس وقت تک معاشی استحکام نہیں آ سکتا اور معاشی استحکام کے بغیر ملک سےبے روزگاری ختم نہیں ہو سکتی، غربت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے، طرز زندگی بلند نہیں ہو گا، طرز تعلیم بہتر نہیں ہو گا، تعلیم عام نہیں ہو گی، بنیادی تعلیم اور اعلی تعلیم کا حصول خواب ہی رہے گا۔ صحت کی سہولیات سے محروم رہیں گے، سڑکوں پر مانگنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا، ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ انفراسٹرکچر تباہ ہو جائے گا۔ چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں کا ملک اس عدم استحکام کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حالات ٹھیک کرنے، سبز پاسپورٹ کی عزت میں اضافے اور قرضوں کے جال سے نکلنے کے لیے پاکستان کو استحکام کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے سیاسی استحکام آئے گا اور معاشی استحکام کی باری اس کے بعد ہے اور یہ استحکام ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ یہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ہونے والا کام نہیں ہے۔معاشی استحکام کے لیے طویل المدتی سیاسی استحکام بنیادی شرط ہے۔ اگر جہانگیر خان ترین کی جماعت میں شامل افراد اس عزم اور جذبے کے ساتھ جڑے رہے کہ ہر حال میں ملک کو آگے لے کر جانا ہے تو کوئی طاقت پاکستان کی ترقی روک نہیں سکتی۔ خدا کرے استحکام پاکستان پارٹی ملک میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہو۔ ملک کو تحمل اور برداشت کی اشد ضرورت ہے۔ استحکام پاکستان پارٹی میں بہت کامیاب اور تعمیری کام کرنے والے لوگ موجود ہیں۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان لوگوں کے لیے بھی لازم ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کریں اور تلخ ماضی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھیں۔ سیاسی استحکام کا سب سے زیادہ فائدہ سیاسی جماعتوں کو ہی ہونا ہے کیونکہ یہ پاور گیم ہے اور زیادہ دیر تک پاور میں رہنے کا موقع بھی سیاسی اور معاشی استحکام کی صورت میں ہی مل سکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود بہت سے لوگوں کے بڑے بڑے کاروبار بھی ہیں اگر ملک ترقی کرے گا تو ان کے کاروبار میں بھی اضافہ ہو گا۔ نئے نئے کاروبار ہوں گے عام آدمی کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے اور صنعتکاروں کی دولت و جائیداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایسی سرگرمیوں میں ملک و قوم کا بھی بھلا ہو گا۔




ایک مرتبہ پھر ہمیں اصلاح کا موقع ملا ہے۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی رہنماو¿ں کو طعنے دینے اور ماضی کی سیاسی وابستگی کو یاد کروانے کے بجائے صاف دل سے سب کو قبول کرنے کی عادت اپنانا ہو گی۔ کیونکہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ میری نظر سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا ایک ٹویٹ گذرا۔ امیر جماعت لکھتے ہیں “پرانے انڈوں کو نئی ٹوکری میں ڈالنے سے استحکام نہیں آتا” یہ الفاظ سراج الحق کے شایان شان نہیں ہیں۔ وہ الفاظ کو ذخیرہ رکھتے ہیں وہ اس سے بہتر الفاظ استعمال کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں ان سے بہت اچھی گفتگو کی توقع کرتا ہوں۔ اس جملے پر بہت تنقید ہو سکتی ہے لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور طعنوں کی زندگی سے باہر نکلنا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی قیادت سے یہی گذارش ہے کہ اس ملک میں پھیلی سیاسی نفرت کو نفرت سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے ملک کو مشکلات سے نکال کر پائیدار ترقی کی طرف جا سکتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں صلاحیت کی کمی نہیں بس ہمیں شکریہ ادا کرنا نہیں آتا، معذرت کرنے کا فن نہیں آتا۔ نہ ہمارے اندر شکریہ ادا کرنے کی ہمت ہے نہ معذرت کی طاقت۔ حالانکہ یہ دو بنیادی چیزیں ہیں جو بہت سے مسائل کو ختم کر سکتی ہیں۔ 

پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے پاس ملک کی خدمت کا اچھا موقع ہے۔ وہ سیاسی مخالفین کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو بھی اپنی میڈیا پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ہر وقت کی پریس کانفرنس وقت کا ضیاع ہے اگر رات گئے تک شاپنگ مالز، کاروباری مراکز کھلے رہنے سے توانائی کا ضیاع ہوتا ہے تو ہر وقت لوگوں کو بے معنی اور غیر ضروری پریس کانفرنسوں میں الجھانا سے وقت ضائع ہوتا ہے۔ صبح دوپہر شام اور رات گئے ایک بیمار کی دوائی کی طرح وفاقی وزراء کا ٹیلی ویژن پر آنا ضروری نہیں ہے۔ سیاست دان اپنے محکموں پر توجہ دیں اور دیرینہ مسائل حل کرنے کی حکمت عملی تیار کریں۔

وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تو پیش کر دیا ہے۔ اصل بجٹ تو اس وقت بنے گا جب عام آدمی کی زندگی میں سہولت ہو گی۔ اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے سے عام آدمی کو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ نہ تو اسے آٹا سستا ملتا ہے، نہ کھانے پینے کی دیگر اشیا نہ بچوں کی تعلیم نہ صحت کی سہولتیں میسر ہیں۔ ان حالات میں باتیں تو سننا پڑتی ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس منصب پر مسائل حل کرنے کے لیے آئے ہیں انہیں ری امیجنگ پاکستان والوں کی باتوں کا برا منانے کے بجائے وہاں سے اچھی باتوں سے رہنمائی لینی چاہیے۔ اگر کوئی مناسب انداز میں تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے تو اسے ساتھ ملائیں۔ ان سے مشورے لیں جب آپ درجنوں خوشامد کرنے والوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں تو معیشت پر چند ایک بولنے والوں کو شرپسند نہ سمجھیں۔

آخر میں پروین شاکر کا کلام

کو بکو پھیل گئی بات شناسائی کی 

ا±س نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی 

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ا±س نے 

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 

وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا 

بس یہی بات اچھی ہے میرے ہرجائی کی 

تیرا پہلو , ترے دل کی طرح آباد رہے 

تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی 

ا±س نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 

روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے

جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

Leave a Reply