Aqwam muthida main islahat ki zarurat

اقوام متحدہ میں اصلاحات کی ضرورت




ہیروشیما جاپان ۔21مئی (رائٹرز)۔۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوریٹس نے کہا ہے کہ ’’یہ وقت سلامتی کونسل اور برٹن ووڈز کانفرنس کے فیصلوں میں اصلاحات کے لیے مناسب ہے تاکہ وہ ’’موجودہ دنیا کے حقائق ‘‘کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔

ہیروشیما میں گروپ آف سیون سربراہ اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہاکہ یہ دونوں معاہدے اور تنظیمیں ‘1945میں جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے وقت موجود طاقت کے مختلف مراکز کے مفادات کو ظاہر کرتی ہیں‘اب حالات کافی بدل چکے ہیں،ان معاہدوں اور تنظیموں کو موجودہ حالات کے مطابق اپ ڈیٹ کرنا چاہیے۔‘‘

اقوام متحدہ اوربرٹن ووڈز کا عالمی اقتصادی معاہدہ پرانا ‘ناقابل عمل اور غیر منصفانہ ہے ‘کورونا کے عالمی وباء کی وجہ سے عالمی معاشی بحران اور روس کے یوکرین پر حملے کے دوران ‘یہ تنظیمیں اپنی ذمے داریاں پوراکرنے میں ناکام رہی ہیں۔

سربراہی اجلاس میں سیکریٹری جنرل نے یہ بھی بتایا کہ میں نے محسوس کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ G7نے فرسودہ اداروں کی اصلاح یا گلوبل سائوتھ کی ’’مایوسیوں کو دور کرنے کے کافی کچھ نہیں کیا ۔ویسے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پرانا مسئلہ ہے‘ جس کا تعلق اقوام متحدہ کے اندر نئے حالات کی روشنی میں اصلاحات کے مطالبے سے ہے۔‘‘

1918 میںجنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد ’’لیگ آف نیشنز‘‘کے نام سے ایک عالمی ادارہ اس مقصد کے لیے بنایا گیا کہ وہ عالمی مسائل کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی کو شش کرے گا‘اس ادارے کو اس وقت ناکامی کا سامناکرنا پڑا جب سامراجی ممالک کے درمیان نوآبادیات کی تقسیم کے جھگڑوں کی وجہ سے 1939میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی ‘اس جنگ کے ساتھ ہی یہ ادارہ بھی اپنی موت آپ مر گیا۔

جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ(UNO)”United Nations Organisation”کے نام سے ایک اور عالمی ادارہ قائم کیا گیا‘اس ادارے میں مختلف امور کے لیے مختلف ادارے قائم کیے گئے ‘جنرل اسمبلی ‘سلامتی کونسل‘یو نیسکو ‘یونیسیف اورUNHCR اس تنظیم کے اہم ادارے ہیں‘ سب سے با اختیار ادارہ سلامتی کونسل ہے ‘ اس کے ممبران کی تعداد 15ہے ‘امریکا‘ روس‘ چین‘ برطانیہ اور فرانس مستقل ممبر ہیںجنھیں ویٹو پاور حاصل ہے‘ باقی0 1ممبر دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں‘کافی عرصے سے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے مطالبات ہورہے ہیں‘ ایک بڑا مطالبہ یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے ممبران کی تعداد 15سے بڑھا کر 24کردی جائے اورمستقل ممبران کی تعداد 5سے بڑھاکر 9یا 11کی جائے۔

اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جاپان تباہ ہوگیا تھا اور جرمنی کو شکست کے صدمے کے علاوہ تقسیم کا زخم بھی سہنا پڑا تھا‘ایشیاء کی تقریباً تمام قومیں سامراجی غلامی کا طوق پہنے ہوئے تھیں‘ ہندوستان بھی برطانیہ کی نو آبادی تھی ‘ پورا وسط ایشیا روس کے ماتحت تھا، افغانستان برطانوی ہند اور سوویت یونین کے زیر سایہ جی رہا تھا۔

آج ایشیاء میںہندوستان اور جاپان‘ یورپ میںجرمنی ‘ براعظم جنوبی امریکا میں برازیل اور بر اعظم افریقہ میں جنوبی افریقہ اور نائیجیریا سمیت بہت سی نئی معاشی اور سیاسی قوتیں ابھری ہیں‘یہ طاقتیں عالمی سیاست میں اپنا مقام چاہتی ہیں۔

اقوام متحدہ میں اصلاحات کے متعلق بات چیت کو با ضابطہ بنانے کے لیے 1993میں ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی ”Open-Ended Working Group ”نامی اس گروپ کا مقصد اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا تھا ‘یہ کمیٹی اتفاق رائے پیدا کرنے کے بعد اپنی تجاویز کو جنرل اسمبلی میں لے جاتی ‘ان تجاویز کی منظوری کو جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت درکار ہے ’اس کمیٹی کا قیام ہندوستان سمیت چند ممالک کی طرف سے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کے مطالبے کے بعد عمل میں لایا گیا‘ان ممالک میں ایشیاء سے ہندوستان اور جاپان ‘براعظم جنوبی امریکا سے برازیل ‘بر اعظم یورپ سے جرمنی اور بر اعظم افریقہ سے جنوبی افریقہ اور نائیجیریا جیسے بڑے اور نیم ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں.

اس مطالبے کی مخالفت میں ایک اور گروپ سرگرم رہا ہے‘ اس گروپ کا نام “Uniting for Consensus Bloc”UfCرکھا گیا ‘اس کو عام طور پر Coffee Clubبھی کہتے ہیں‘اس گروپ کی قیادت اٹلی اور پاکستان کر رہے ہیں‘اس گروپ کے قیام کا مقصد سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کے بجائے غیر مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے ‘اس گروپ کی تجویز یہ ہے کہ فیصلہ جنرل اسمبلی کی اکثریت ووٹ کے بجائے اتفاق رائے سے ہونا چاہیے ۔

جنرل اسمبلی نے اپنے اجلاس منعقدہ 15ستمبر 2008میں یہ فیصلہ کیا کہ جنرل اسمبلی کے آنے والے اجلاس میں اصلاحات کے لیے G-4 (ہندوستان‘ جاپان‘جرمنی‘ برازیل) گروپ کی تجاویز کو بحث کے لیے رکن ممالک کے سامنے رکھا جائے۔جنرل اسمبلی کا یہ فیصلہ یقیناً’’ کافی کلب‘‘ کے ممبران کے لیے پریشانی کا باعث تھا‘ابتداء میں بہت سے ممالک اس تجویز کے مخالف تھے لیکن اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں ۔

جنرل اسمبلی میں افریقی ممالک کی تعداد 53 ہے جو اقوام متحدہ کے کل ممبر ممالک کا ایک چوتھائی ہے ‘یہ ایک مضبوط بلاک ہے جو کسی بھی تجویز پر رائے شماری کے وقت نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے‘ افریقی ممالک بھی سلامتی کونسل میں مستقل اراکین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘افریقی ممالک کے گروپ اور G-4گروپ کے ممالک کے درمیان اختلاف نئے مستقل رکن ممالک کو ویٹو پاور دینے کے مسئلے پر ہے ‘افریقی ممالک کا ایک اجلاس سوازی لینڈ کے شہر ازل وینی(Ezulwini) میں مارچ 2005کو ہوا ‘اس اجلاس میں افریقی ممالک کی طرف سے اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں ایک متفقہ موقف اور تجاویز کو منظور کیا گیا‘ان تجاویز کا نام اس شہر کے نام پر “Ezulwini consensus” رکھا گیا ہے.

سلامتی کونسل میں اصلاحات کے بارے میں افریقی ممالک کا موقف ہے کہ’’ ان کو دو مستقل نشستیں دی جائیں‘‘ان ممبران کو ویٹو کا حق بھی حاصل ہوگا ‘اس کے علاوہ افریقی ممالک کو سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشستوں میں پانچ نشستیں دی جائیں۔G-4کے ممالک نے بھی ابتداء میں سلامتی کونسل کے نئے مستقل ممبران کے لیے ویٹو کا حق مانگنے کا فیصلہ کیا تھا ‘بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ فی الحال اس مطالبے کو 15سال کے لیے ملتوی کیا جائے تاکہ جنرل اسمبلی میں ان کی تجاویز کو جلد منظوری مل سکے ‘اقوام متحدہ میں اصلاحات کی اہمیت اور مسائل کے بارے میں آیندہ ۔

Leave a Reply