Insaf ky takazy

انصاف کے تقاضے

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے گزشتہ روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کے سوال پر ریڈیو پاکستان کے ساڑھے چار ہزار پنشنرز کو گزشتہ اپریل سے پنشن کی عدم ادائیگی کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اسے یا تو ان کی لاعلمی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے یا پھر متعلقہ وزارت کے ذمہ داروں کی جانب سے انہیں جس طرح بریف کرکے پنشن کی ادائیگی سے انکار کا بیانیہ اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا وہ بالکل بے بنیاد ہے، وزیر موصوف نے سوال کے جواب میں کہا کہ ریڈیو پاکستان ایک کمرشل ادارہ ہے اور اس کے پنشنرز کی ادائیگی قومی خزانے سے نہیں کی جاسکتی، حقیقتت مگر اس کے برعکس یہ ہے کہ ریڈیو ویسا کمرشل اداہ ہرگز نہیں ہے جیسے کے ریلوے وغیرہ ہیں بلکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے جب کارپوریشن میں ڈھالا گیا تو اس کے ملازمین کی تمام تر ذمہ داری حکومت پاکستان کی ٹھہری تھی اسے ایک Statutory bodyکے طورپر تسلیم کیا گیا تھا جبکہ اس کے برعکس پی آئی اے، پی ٹی وی کے مکمل کمرشل ادارے ہونے کے ناتے آمدن و اخراجات اداروں کے اپنے ذمے تھی، اس ضمن میں کچھ حلقوںکی جانب سے ریڈیو پاکستان کو اب مکمل طور پر کمرشل قرار دیتے ہوئے اسے پنشنرز کو پنشن کی ادائیگی اپنے طور پر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے حالانکہ ریڈیو کی آمدنی اس قابل کبھی نہیں رہی جس سے اس کے اخراجات پورے ہوسکیں، اس کے برعکس پی ٹی وی بنیادی طور پر ایک کمرشل ادارہ ہونے اور سرکاری و نجی شعبے سے ہر سال کروڑوں اربوں کے اشتہارات حاصل کرنے کے باوجود اس کو مالی امداد کے طور پر بجلی کے کروڑوں صارفین سے بجلی بلوں میں ہرماہ اربوں روپے اکٹھے کر کے دینے کا کیا جواز بنتا ہے اور عوام کو ایک” مکمل خودمختار کمرشل ادارے” کو اخراجات پورے کرنے کیلئے عوام کو کس قانون کے تحت ٹی وی لائسنس کے نام پر ٹیکہ لگایا جا رہا ہے، اگر اربوں روپے اشتہارات اکٹھا کرنے والے ادارے کو حکومتی سرپرستی میں لائسنس فیس کے نام پر پیسے بٹورنے کی اجازت دی جا سکتی ہے تو ریڈیو پاکستان کے ایکٹ کے تحت اس ادارے کے پنشنرز کو حکومتی خزانے پر بوجھ کیوں قرار دیا جارہا ہے؟ جبکہ متعلقہ ایکٹ کی تفصیل طلب کرکے وزیر خزانہ ساڑھے چار ہزار گھرانوں کی دادرسی کر سکتے ہیں، امید ہے کہ ریڈیو پاکستان کے سابق ملازمین کے ساتھ اس زیادتی کا تدارک کرکے ان کو بھیک مانگنے اور خودکشیاں کرنے پر مجبورنہیں کیاجائے گا۔




Leave a Reply