Nai siasi party aur iska mustaqbil

نئی سیاسی پارٹی اور اس کا مستقبل




پاکستان تحریک انصاف آج جس انجام کو پہنچ چکی ہے، اس کی ذمے دارصرف ایک ہی شخصیت ہے، اُنہوں نے گزشتہ چند سالوں میں جو بیج بوئے تھے، اس کی فصل ایسی ہی ہونی چاہیے تھی۔ 9 مئی کو جوکچھ بھی ہوا وہ اپنے آپ کو اس سے مبرا قرار نہیں دے سکتے ہیں، وہ جس راہ پر چل پڑے تھے اس کا انجام ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔

وہ خود کش حملہ آورکی مانند اپنے ہی ملک کے اداروں کو تباہ کرنے کے مشن پرگامزن ہوگئے تھے۔ وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس طرح عسکروں اداروں پرضرب لگاکر وہ اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیں گے اور اس ملک کے مضبوط ترین حکمراں بن جائیں گے۔ فوجی تنصیبات پر حملے ملک کے دشمن کیا کرتے ہیں اپنے لوگ نہیں۔

آپ کو اگر کسی ایک یا دو شخصیت سے شکوہ ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ سارے ادارے ہی کو تہس نہس کر بیٹھیں گے۔ آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کو بھی اداروں سے اختلاف رہا کرتا تھا لیکن کسی نے یہ جرات نہیں کی کہ وہ اس ادارے ہی پر چڑھ دوڑیں۔ صرف ایک ماہ کے قلیل عرصے میں پارٹی کا یہ حشر ہوجائے گا کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔

تحریک انصاف کے سو سے زیادہ ارکان ایک دوسری نئی پارٹی کا حصہ بن چکے ہیں اور وہ صرف چند رہنماؤں کے ساتھ یہ معرکہ کیسے طے کر لیں گے وہ اب خود ہی بتاسکتے ہیں۔تحریک انصاف کے چند ساتھی بھی کسی وقت پارٹی کو خیر باد کہہ کر اپنی جان بچانے کی کوششوں میں لگ جائیں گے۔ اُنہوں نے جو کچھ کیا اس کا انجام ایسا ہی ہونا تھا۔

دوسری طرف جہانگیر خان ترین جو دو سال سے خاموش بیٹھے تھے اور اس وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ کب حالات ساز گار ہوتے ہیں۔ مگر ہماری رائے میں جہانگیر ترین نے ہر اس شخص کو اپنی نئی پارٹی میں خوش آمدید کہہ کر جو تحریک انصاف سے الگ ہوکر ان کے پاس آپہنچا تھا کچھ بہتر سیاسی فیصلہ نہیں کیا۔ یہ تمام لوگ جہانگیر ترین سے محبت یا ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے نہیں آملے ہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات اور بچائو کی خاطر وہ یہ طوعاً وکرہاً اور بادل نخواستہ ایسا کررہے ہیں۔

انھیں ہرگز اس نئی پارٹی سے کوئی لگاؤ نہیں ہے اور وہ جس طرح تیزی سے آئے ہیں، اسی تیزی کے ساتھ واپس بھی چلے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اب شاید اگلے الیکشن میں ووٹ بھی نہ ملیں۔ اُن کو پہلے بھی ووٹ اپنی وجہ سے نہیں ملے تھے ، لہٰذا اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ جہانگیر ترین کنگ میکر بن گئے ہیں تو ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ نئی بننے والی پارٹی کے پاس سوائے چند وفادار لوگوں کے کوئی ایک بھی شخص قابل اعتبار نہیں ہے۔ وہ کس وقت پارٹی کو چھوڑ دیں کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔ وہ اس وقت مجبوراً نئی پارٹی سے عہد وفا نبھانے کی ظاہری کوشش کررہے ہیں۔

دل سے وہ اب بھی تحریک انصاف ہی سے محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں۔ یہی حال ووٹروں کا بھی ہے اور وہ فی الحال خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا کی پالیسی پرگامزن ہے۔ مسلم لیگ نون نے درست پالیسی اختیارکی ہے اور ایسے کسی منحرف رکن کو اپنی پارٹی میں سمونے سے انکارکر دیا ہے جو کل تک تحریک انصاف کے گن گایا کرتا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی چنداں چنداں ہی کچھ لوگ اپنی پارٹی میں لیے ہیں جو اُن کی ضرورت بھی ہے۔

پنجاب میں اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اسے کچھ الیکٹیبلز کی ضرورت ہے اور وہ اس کام پر سمجھداری سے لگی ہوئی بھی ہے۔ آصف علی زرداری کو معلوم اور یقین بھی ہے کہ وہ وفاق اور سندھ کی سطح پر نیا الیکشن جیت جائیں گے۔ سندھ سے تو وہ مکمل طور پر مطمئن اور پرسکون ہیں کہ وہاں کوئی بھی اُن کے مد مقابل نہیں ہے۔

سندھ کے علاوہ بلوچستان اورخیبر پختون خوا سے بھی وہ کچھ سیٹیں نکال لیں گے اور رہ گیا پنجاب تو جنوبی پنجاب میں اُن کی کامیابی کے روشن امکانات بھی ہیں لہٰذا کچھ جوڑ توڑ اور مفاہمت کی پالیسی اپنا کر وہ اسلام آباد میں اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کو وزیراعظم بنالیں گے۔

صوبائی سطح پر پنجاب شاید مسلم لیگ نون ہی کو واپس مل جائے لیکن باقی تین صوبوں میں پیپلزپارٹی کی یا مخلوط حکومتیں ہی دکھائی دیتی ہیں، مگر یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا جب تحریک انصاف میدان سے خود کو الگ کر لے گی۔ اس سارے منظر نامے میں ہمیں کہیں بھی جہانگیر ترین کی پارٹی کنگ میکر دکھائی نہیں دے رہی، یہ تو اندازے ہیں لیکن آنے والے حالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں ۔

ہمارے یہاں کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر نئی پارٹی کی تشکیل کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، جب کہ یہاں ایسی صورت ہرگز نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو جہانگیر ترین دو سال تک اس طرح غیر فعال نہیں ہوتے۔ آج بھی وہ اگر فعال ہوگئے ہیں تو کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ تحریک انصاف سے نکل کر آجانے والوں کی ایما پر وہ اس نئی پارٹی کی تشکیل پر مجبور ہوئے ہیں۔

نئی پارٹی کی قیادت کے آیندہ کے ارادوں اور پالیسیوں کاکچھ پتا نہیں چل رہا۔ میرے خیال میں اگلا الیکشن جب بھی ہوا تو زرداری فارمولا کامیاب ہوگا۔ اُن کے اندر کا اعتماد اس بات کا غمازی ہے کہ وہ موجودہ سیاسی کھیپ میں سب سے ذہین اور زیرک سیاستدان ہیں، وہ جوکچھ کہتے ہیں، صرف ہواؤں میں نہیں کہتے ان کی باتوں کے پیچھے اُن کی ذہانت بولتی دکھائی دیتی ہے۔

Leave a Reply