Riasat hogi maa kay jesi ?

ریاست ہوگی ماں کے جیسی؟




چھوٹا سا سیسنا ہوائی جہاز سات مسافروں کو لے کر یکم مئی کو فضا میں بلند ہوا۔ کولمبیا کے ایک مختصر سے ایئرپورٹ سے اڑنے والے طیارے نے سین جوز تک سفر کرنا تھا۔ یہ بالکل عام سا سفر تھا۔

ابراراکبورارے ایئرپورٹ سے اس طرح کی درجنوں فلائٹس چلتی رہتی تھیں۔ مسافت کے درمیان کولمبیا کے مہیب ترین ایموزون کے جنگلات تھے۔ جن میں خطرناک ترین جانور انا کونڈا‘ سانپ اورانسانی جان کو ختم کرنے والے تمام اسباب موجود تھے ۔ اچانک پائلٹ نے کنٹرول روم کو اطلاع دی کہ جہاز کا انجن فیل ہو چکا ہے۔ پیغام دینے کے فوراً بعد جہاز ‘ جنگل میں گر کر تباہ ہو گیا۔

سات میں سے تین مسافر فوراً مر گئے۔ جن میں پائلٹ اور ایک خاتون شامل تھی۔ اس خاتون کے چار بچے بھی جہاز میں موجود تھے۔ ان کی عمریں13‘ 9 اور 4برس تھیں۔ سب سے چھوٹا بچہ صرف اور صرف بارہ ماہ کا تھا۔ قدرت کا کمال دیکھیے کہ حادثہ میں چاروں بچے مکمل طور پر محفوظ رہے۔ فضائی حادثہ سے بچاؤ تو ممکن ہو گیا۔ مگر اب یہ دنیا کے ہولناک ترین جنگل میں تھے۔ جہاں نہ کوئی آدم نہ آدم زاد۔ نہ کھانے پینے کا کوئی انتظام اور نہ ہی رہنے کا کوئی محفوظ ٹھکانہ۔

ان معصوم پھولوں کو تو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ اس جنگل میں زندہ کیسے رہنا ہے۔ بلکہ باہر کیونکر نکلنا ہے۔ اور کس سمت میں جانا ہے۔ کسی قسم کی مدد کا بھی کوئی سوال نہیں تھا۔ یہاں سے حکومت کا امتحان شروع ہوا ۔ جیسے ہی حادثہ کی خبر‘ کولمبین صدر کو دی گئی۔ فوری حکم دیا کہ مسافروں کی تلاش کے لیے تمام سرکاری وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ یہ وہ ریاستی کردار ہے جسے بڑی تسلی سے کہا جا سکتا ہے ’’ریاست ہو گی‘ ماں کے جیسی‘‘۔

ہمارے ہاں تو خیر اس جملے کا کوئی مطلب نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب قدرے متضاد ہے۔ کہ ریاست کا اپنے شہریوں کے لیے ’’سوتیلی ماں‘‘ جیسا کردار ہوتا ہے۔ بہر حال میں ایک ایسے ملک کی بابت عرض کر رہا ہوں جہاںحکومت اپنے شہریوں کو جانور نہیں‘ انسان سمجھتی ہے اور انھیں پابند سلاسل کرنے کے بجائے محفوظ رکھنے کی تمام کوششیں کرتی ہے۔

اب سوال یہ تھا کہ مسافروں اور ان کے ساتھ ننھے منے بچوں کا کیا ہوا۔ کولمبیا کی ایئر فورس اور فوج نے سویلین انتظامیہ کے ساتھ مل کر جنگل میں ایک حد درجہ اعلیٰ ریسکیو مشن شروع کیا۔ ایئر فورس نے بارہ ہیلی کاپٹر مختص کیے۔ جو گھنے درختوں کے اوپرچکر لگاتے تھے۔ کھانے کے ڈبے نیچے پھینکتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ رنگدار دھویں کو فضا میں بلند کرتے تھے‘ جس سے زندہ رہنے والوں کو اندازہ ہو جائے کہ ان کی تلاش جاری ہے۔

ساتھ ساتھ فوجیوں نے جدید ترین آلات اور حد درجہ تربیت یافتہ کتوں کے ذریعے جنگل کو کھنگالنا شروع کر دیا۔ جنگل میں بہر حال جہاز کا ملبہ مل گیا۔ اس میں پائلٹ اور خاتون ماں کی لاش موجود تھی۔ مگر سوال یہ تھا کہ بچے کدھر گئے۔ دن گزرتے گئے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ ہفتے گزر گئے۔ کولمبیا کے صدر نے حکم دیا کہ جب تک بچوں کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ آپریشن جاری رہے گا۔ ٹھیک چالیس دن بعد‘ ریسکیو ٹیم کو چاروں بچے زندہ حالت میں مل گئے۔

وہ حدد درجہ کمزور ہو چکے تھے اور صرف اشاروں میں بات کر رہے تھے۔ خستہ حالت میں جب ان بچوں کی حفاظت سے بچنے کی خبر کولمبیا کے شہریوں تک پہنچی تو پورے ملک میں جشن کا سماں ہو گیا۔ لوگوں نے سڑکوں پر رقص کرنا شروع کر دیا۔ جب صدر تک یہ خبر پہنچی تو اس نے کہا کہ بچوں کا ایموزون جنگل میں ایک ماہ سے زیادہ محفوظ رہنا صرف اور صرف معجزہ ہے۔ بہر حال چاروں بچے آج سے ٹھیک دو دن پہلے حکومت نے اپنے گھر پہنچا دیے۔

یہ واقعہ‘ ایک بہت بڑی حقیقت کو وضاحت سے آشکارہ کرتا ہے کہ ریاست یا حکومت کی اپنے شہریوں سے تعلق کی نوعیت کیسی ہے۔ کیا یہ واجبی طور پر آئین میں چند عمدہ جملے ہیں۔ جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ یا ریاست اپنے شہریوں کا تحفظ کرنے کے لیے تن من دھن ‘ سب کچھ وار دیتی ہے۔ کولمبین صدر‘ دس پندرہ دن کے سرچ آپریشن کے بعد بڑے آرام سے کہہ سکتا تھا کہ وسائل کی کمی کی بدولت یا بجٹ میں اس مہنگے کام کے لیے بجٹ مختص نہیں ہے‘یہ آپریشن مزید نہیں ہو سکتا۔

مگر کولمبین صدر نے اعلان کیا کہ جب تک تمام بچے زندہ یا مردہ حاصل نہیں کیے جاتے‘ ریاست اپنا کام کرتی رہے گی۔ یاد رہے کہ کولمبیا کوئی امیر ملک نہیں ہے۔ ہم سے تو خیر قدرے بہتر ہے۔ اس کے سماج ‘ ریاست اور حکومت میں ہر طرح کے مسائل ہیں۔ مگر آپ ان کی ریاست کا شہریوں کی حفاظت کے لیے جذبہ دیکھیے کہ انھوںنے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بالکل متضاد جب میں اپنے ملک پاکستان میں حکومت اور ریاست کا اپنے شہریوں کے ساتھ تعلق کی نوعیت کو دیکھتا ہوں تو صرف افسوس ہوتا ہے بلکہ اب تو شدید دکھ ہوتا ہے۔

جھوٹے دعوے‘ ادنیٰ تقاریر‘ احمقانہ پریس کانفرنسیں اور لفظی غلاظت کا وہ ملغوبہ سامنے آتا ہے جس سے عام شہریوں کے بنیادی مسائل کا کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ عملاً یہ لاتعلقی والا رشتہ ہے۔ جہالت اور ظلم کی ان گنت مثالیں دے سکتا ہوں۔ تین چار دن پہلے‘ مرکزی حکومت کی ایک وزارت نے نصف صفحے کے اخباری اشتہارات چھپوائے کہ اگلے دس برس میں ان کی منصوبہ بندی سے ملک کی معیشت ایک ٹریلین ڈالر ہو جائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ 2035 تک کی بات فرما رہے ہیں۔ اور ان کی حکومت اگلے ایک ماہ میں ختم ہو رہی ہے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ وہ اگلے دس بارہ برسوں کی معیشت کے متعلق کیسے کوئی بھی پیشن گوئی کر سکتے ہیں جب کہ ان کی آئینی مدت صرف اور صرف چار ہفتوں کے لگ بھگ ہے۔ ہندوستان کی صرف ایک ریاست کرناٹکہ کی معیشت کے بڑھنے کی رفتار نوفیصد ہے۔ اور اگلے آ ٹھ سے دس برس میں صرف کرناٹکہ کی ریاستی معیشت ‘ ایک ٹریلین ڈالر ہوجائے گی۔ جب کہ ہمارے اقتصادی گرو‘ پورے ملک کی ترقی کی نوید سنا رہے ہیں۔ کیا یہ شرم کی بات نہیں کہ ہندوستان کی ایک ریاست‘ معاشی طور پر ہمارے پورے ملک سے بر تر ہے۔

چند دن قبل ‘ وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کیا ہے۔ اہم وزیروں کا پورا جتھہ ‘ ملک کے سامنے پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ جو اعداد و شمار اس ٹیم نے پیش فرمائے۔ وہ کسی کے لیے بھی باعث شرم ہیں۔ ملک کی معاشی ترقی‘ ان معاشی کرم فرماؤں کی موجودگی میں 0.29فیصد رہی۔ ہر اقتصادی شعبہ بربادی کی ایک کہانی تھی اور ہے۔ مگر ان کی پریس کانفرنس سے ایسے لگ رہا تھا کہ یہ ملک کو پندرہ فیصد ترقی سے ہمکنار کر چکے ہیں۔ اور کمال یہ کہ وزیراعظم نے اپنی معاشی ٹیم کی حد درجہ تعریف کی۔

افسوس یہ ہے کہ اگر ریاستی بیانیہ صرف اور صرف مبالغہ اور جھوٹ پر مبنی ہے تو ملک میں ترقی کیا خاک ہو گی۔ سیاسی عدم استحکام تو ایک طرف‘ معاشی بربادی پر شادیانے بجانے والے یہ کون ہیں؟ غریبوں کے دکھ کا مداوا تو ایک طرف‘ یہ تو امیر آدمیوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ سیاست کا ایک ادنیٰ سا طالب علم بھی سمجھ سکتا ہے کہ موجودہ حکومت‘ اس خطے کی ناکام حکومت ہے۔ مگر اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ورلڈ بینک کا صدر بھی ان کے سامنے سربسجود ہیں۔ ویسے بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے سربراہان اگر بدقسمتی سے پاکستانی ہوتے تو ان کے بیوی بچوں اور رشتہ داروں پر اب تک ریاستی جبر قیامت ڈھاچکا ہوتا۔

بہر حال اس نکتے پر بات کیا کرنی۔ اب تو پانی نہیں بلکہ سمندر ہی سر کے اوپر سے گزر چکا ہے۔ ہماری حکومتیں کیوں نہیں سمجھ رہیں کہ ان کا اصل مقصد غریب اور عام آدمی کے لیے آسانیاں فراہم کرنا ہے۔ مگر وہ برانڈڈ سوٹ اور آکسفورڈ اسٹریٹ لندن سے خریدی ہوئی قیمتی ٹائیاں لگا کر ہمارے مسائل حل کرنے کی اداکاری کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارے ریاستی اداروں اور عام آدمی کے درمیان خلیج ہے جو آہستہ آہستہ نفرت کی طرف جا چکی ہے۔ مگر کسی کو کوئی فکر نہیں۔

غیر ملکی میڈیا ‘ ہمارے ملک کے ابتر حالات کو چیخ چیخ کر بتا رہا ہے ۔ مگر ہم محلاتی سازشوں سے آگے سوچنے اور سمجھنے کی استطاعت سے مبرا ہیں۔ کوئی بھی سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں۔ کولمبیا کے صدر نے تو چالیس دن کے بعد دنیا کے سب سے مہیب جنگل سے‘ اپنے چار معصوم بچے بچا لیے۔ مگر ہمارے ہاں تو دن میں پتہ نہیں‘ کتنے پھول مسلے جاتے ہیں۔ عام لوگوں پر کیسی کیسی قیامتیں برپا کی جاتی ہیں۔ مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ مگر وہاںجھوٹا اعلان نہیں کیا جاتا ہے‘ کہ ’’ریاست ہو گی‘ ماں کے جیسی‘‘؟

Leave a Reply