”Death On Arrival” Or “The END“?

”Death On Arrival” Or “The END“?




بھارتی وزیر اعظم مودی اور اُس کی جاسوس ایجنسی ’را‘ بھی انتہائی احمق اور نالائق ہے۔ بھلا انہیں کلبھوشن اور ابھی نندن کو پاکستان بھیجنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ پاکستان میں عمران نیازی اور اُس کی پی ٹی آئی موجود تھی۔ عمران نیازی نے دنیا کی چھٹی بڑی فوج اور ایٹمی طاقت کی تنصیبات پر حملہ کرا کر وہ رسوائی کرائی جس کی خواہش دل میں لیے کئی بھارتی وزیر اعظم اور اُن کے جاسوس اداروں کے سربراہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ کوئی درست الدماغ شخص پاکستانی بچوں کو اِس خود کشی کا رستہ دکھا سکتا ہے؟ ایسی واہیات حرکت صرف وہی کر سکتا ہے جو انقلاب کی سائنس سے واقف نہ ہو، جسے ریاست کی طاقت اور اُس کے مد مقابل کسی نظریاتی انقلابی جماعت کی اہمیت کا علم نہ ہو۔ میں نے بہت پہلے لکھا تھا ”عمران نیازی ہمیشہ ہم سے الجھتا رہا کہ میں اقتدار میں آ کر سیاستی تنظیم بنا کر دکھاؤں گا جبکہ ہمارا موقف یہ تھا کہ تنظیم ہمیشہ سیاسی بحران میں وجود پاتی ہے“۔ لو! یہ پڑی ہے تمہاری اقتداری تنظیم۔ عمران نیازی نے اپنی حماقت سے اتنا بڑا بحران پیدا کر دیا ہے کہ سیاسی ورکر اس تنظیم کیلئے کام کرنا تو دور کی بات اس تنظیم کا حصہ بننے کیلئے بھی ایک ہزار بار سوچے گا۔ اگر کسی کے دماغ میں یہ غلط فہمی ہے کہ عمران نیازی اور اُس کے دہشتگرد ساتھیوں کیلئے عام معافی کا کوئی اعلان ہو جائے گا تو وہ اِس خوشی فہمی کو فوری خیر باد کہہ دے۔ جو لوگ عمران نیازی اور پی ٹی آئی کے اس عمل کو جائز سمجھتے ہیں انہیں پہلے طالبان کے جی ایچ کیو پر حملے، فوجیوں کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلنے، بم دھماکوں اور ایسے لاتعداد ریاست دشمن اعمال کو بھی جائز قرار دینا ہو گا۔ 5 جولائی کو جب پاکستان پیپلز پارٹی یوم ِ سیاہ منا رہی ہو گی تو اُس وقت تک بہت سے اہم فیصلے پاکستانی عوام کے سامنے آ چکے ہوں گے۔ عمران نیازی نے بم کو لات مار کر ایک بار پھر انہیں سیاسی مداخلت کا موقع فراہم کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری تاریخ میں پہلی بار وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ادارے کو سیاست سے الگ رکھیں گے لیکن جب آپ معمولی طاقت کے ساتھ بہت زیادہ طاقت سے ٹکراتے ہیں تو پھر آپ کو ناکام بغاوتو ں کی تاریخ بھی پڑھ کر رکھنی چاہیے تھی۔ مسٹر عمران نیازی! یہ بچے جو اب ملٹری کورٹس میں پیش ہوں گے یا پھر اینٹی ٹیررسٹ کورٹس کا سامنے کریں گے تو کیا انہیں وہ سہولتیں بھی مل پائیں گی جو عبد العلیم خان نے کوٹ لکھپت جیل کو اپنی ذاتی خرچے پر دے رکھی ہیں۔ یہ بچے جو دہشتگردی جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں نہ تو گولڈ اسمتھ کے نواسے ہیں اور نہ ہی عمران نیازی کے بیٹے جن کیلئے دنیا کے دل میں درد ہو گا۔ یہ پاکستان کے غریب گھروں کے بچے ہیں کیونکہ بالا دست طبقہ کی وہ انسانی ڈھال جسے آپ نے استعمال کیا تھا اُسے لینے امریکہ سے اُس کے وارث پہنچ چکے ہیں اور صرف ایک خاتون کو فوجی عدالتوں سے رعایت دینے کیلئے باقی سب کیلئے بھی درِ توبہ کھول دیا گیا ہے۔
نسل در نسل بے وفائی کی ایک تاریخ اپنے خطے میں اُن خاندانوں کی بھی ہے جنہوں نے بیرونی حملہ آوروں کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے اپنوں کی جان، مال اور عزت سب کچھ حملہ آوروں پر نچھاور کر کے انعام و اکرام اور غلامی و رسوائی کا طوق اپنے گلے میں ڈالا۔ تاریخ کے یہ بدترین مجرم آج بھی ریاست پاکستان میں نہ صرف اقتداری قوتوں کی آنکھ کا تارا ہیں بلکہ یہی وہ طبقہ ہے جسے سات خون معاف ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے دادا کے دادا یعنی لکڑ دادا شاہ محمود قریشی (اول) نے 1857 کی جنگ آزادی میں مجاہدین کا قتل عام اپنے مریدوں سے کرا کر بزرگان دین اور تصوف کے پاکیزہ مقامات کو رسوا کرایا جو آج بھی تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔ اسی شاہ محمود قریشی (اول) نے پنجاب کے نامور سپوت رائے احمد خان کھرل کو گوگیرہ کے مقام پر کرنل ہملٹن کے فوجی دستے کا سپاہی بن کر سجدے کی حالت میں شہید کرایا۔
1946 کے انتخابات میں شاہ محمود قریشی (دوم) کے دادا مرید حسین قریشی نے شجاع آباد سے مسلم لیگ کے خلاف یونیننسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔ یہ وہی مرید حسین قریشی تھے جن کے صاحبزادے مخدوم سجاد حسین قریشی، نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جنرل ایوب کی واہیات الیکشن کمپین کی، پہلے ضیاالحق کی مجلس شوریٰ کے رکن اور بعد ازاں ضیاالحق کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور پھر گورنر پنجاب بن کر صوبے کی اہم ترین نشست پر بیٹھ کر پاکستان میں ضیاالحق کے ہر حکم کی بجا آوری کرتے رہے۔ عمران نیازی کے شاہ محمود قریشی اسی سجاد قریشی کے ’فرزندِ ارجمند‘ہیں۔ جنہوں نے سیاسست کا آغاز 1983ء میں ملتان سے کونسلر کا الیکشن جاوید ہاشمی کے بھائی مختار ہاشمی سے ہار کر کیا جبکہ اُس وقت اُن کے والد ممبر فیڈرل کونسل پاکستان تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخاب میں ملتان سے صوبائی اسمبلی کے رکن آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے اور جلد ہی 1986 میں جونیجو لیگ کو پیارے ہو گئے۔ محترمہ بے نظیر کے خلاف جب اسلامی جمہوری اتحاد1988 میں بنایا گیا تو شاہ محمود قریشی نے نواز شریف کی چھتر چھایا کو دارالامان سمجھا۔ 1993 میں منظور وٹو کے ساتھ سیاسی عہد و پیماں کیے جو چند ماہ ہی چل سکے اور جلد ہی 1993 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ہو گئے جس میں زندگی کے بیس سال
گزارنے کے بعد انہیں یاد آیا کہ یہ بھٹو کی پیپلزپارٹی نہیں بلکہ زرداری لیگ ہے اور پھر اُن کا اگلا پڑاؤ 2011ء میں تحریک انصاف میں ہوا۔ جہاں وہ اُسی سیاسی آندھی میں اڑ کر گئے تھے جو 2011ء سے لے کر 2022ء تک پاکستان میں چلتی رہی۔ شاہ محمود کو عمران نیازی اقتدار میں آنے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی بنانا چاہتے تھے لیکن شاہ جی نے وزیر خارجہ بننے کی ضد کی جو پوری کر دی گئی۔ اپریل 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت عدمِ اعتماد کے نتیجہ میں ختم ہو گئی اور عمران نیازی نئے بیانیے کے ساتھ عوام کے سامنے تھا جو شاہ محمود کے ڈی این اے کے ہی خلاف تھا سو اِس سے زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
عمران نیازی کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو جنگجو سیاسی ورکروں کی ضرورت تھی جو اُس نے کبھی تیار ہی نہیں کیے تھے سو ایک سال تک زمان پارک میں عمران خان کی قیادت اور ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں اسلم اقبال، حافظ فرحت، حسان نیازی اور زبیر نیازی کی زیر نگرانی ریڈی میڈ مجاہد تیار کیے گئے جن کو ساری قوم نے 9 مئی کو جہاد کرتے دیکھا۔ 8 مارچ کو جب یہ تیاری ہو رہی تھی اُس وقت جو 154 موبائل نمبر زمان پارک میں تھے وہی 154 نمبرز 9 مئی کو جناح ہاؤس کے اندر اور باہر پائے گئے ہیں۔ کسی سیاسی تنظیم میں ہونے والے اتنے بڑے زیر زمین پروگرام سے اُس جماعت کے وائس چیئرمین کو کیسے لا علم رکھا جا سکتا ہے؟ لیکن شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ Death on Arrival ہو گا جبکہ استحکام پاکستان پارٹی کے متوقع مرکزی صدر عبد العلیم خان کا کہنا ہے کہ ”عزت اور ذلت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ کس کی Death on Arrival ہے اور کس کا The End ہو رہا ہے۔ میں تو ایک بات جانتا ہوں کہ1997 میں ن لیگ کی دو تہائی اکثریت تھی لیکن مشرف کے فوجی کُو کے بعد بننے والی ق لیگ 2002 کے انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر عوام کے سامنے تھی۔ شاہ محمود قریشی (اول) نے 1857 کے مجاہدین کا قتل عام کرایا اور شاہ محمود قریشی (دوم) نے ”جعلی حقیقی آزادی“ کے ڈھونگ میں عمران نیازی کا ساتھ دیتے ہوئے پاکستانی بچوں کو گمراہ کر کے ایک ایٹمی طاقت کے حساس مقامات پر حملہ کرایا۔ مودی بھی انتہائی جاہل اور بیوقوف ہے خواہ مخواہ اپنا روپیہ اور طاقت فضول میں خرچ کر رہا ہے جبکہ یہ ”فریضہ“ ہمارے اپنے ”صادق و امین“ اُس سے کہیں زیادہ خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہیں۔

Leave a Reply