Intaqam say istehkam tak

انتقام سے استحکام تک




استحکام پاکستان کے قیام پر کوئی تجزیہ کار کہہ رہا تھا کہ ان کے پاس سیاسی شعور رکھنے والا کوئی نہیں ہے کیا کوئی ایک بھی آدمی ایسا نہیں جو سیاسی جماعت کا نام ہی سیاسی رکھ دیتا۔ وقتی طور پر تو مجھے بھی اُس کی بات نے متاثر کیا مگر پھر استحکام پاکستان میں آنے والے چہرے دیکھے تو لگا کہ نام بالکل درست ہے کیونکہ 2011 میں مینار پاکستان پر ایک نرگسیت پسند، خود پسند سیاسی رہنما کی اداکاری کرنے والے نے پہلا لفظ ہی بولا کہ میں ماضی کے سیاست دانوں سے کہنا چاہتا ہوں۔ اس قدر تکبر، رعونت اور انسان دشمن شخصیت میں نے پڑھی نہ سنی اور آج وہی سرزمین ہے کہ محترم نیازی صاحب خود ماضی بنے ہوئے ہیں۔ استحکام پاکستان کے موقر اور معتبر لوگوں میں عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین نمایاں ہیں، عبدالعلیم خان کی وطن پرستی، انسان دوستی، دوست پروری کا ایک زمانہ گواہ ہے۔ وہ بنیادی طور پر کاروباری شخصیت ہیں اور دوستوں کے دوست ہیں، سیاست میں ق لیگ اور پھر پی ٹی آئی میں آئے اِس جماعت کو مالا مال کر دیا، نہال کر دیا یقینا ان کے خیال میں ہو گا کہ اگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نیازی صاحب کی حمایت کر رہی ہے اور نیازی صاحب بھی کوئی ایسا دعویٰ نہیں جو منشور میں شامل نہ ہو، کر رہے ہوں۔ میرے خیال سے چھوٹے قد کو بڑا اور بڑے کو چھوٹا کرنے کا بھی کوئی مطالبہ کرتا تو نیازی صاحب وہ بھی کر گزرتے۔ عمران نیازی کی زندگی میں کوئی ایک رشتہ کوئی ایک ساتھی ایسا نہیں جس کے ساتھ وفا کی ہو۔ ہم ذاتی زندگی کو زیر بحث نہیں لاتے، سیاسی حوالے سے بات کرتے ہیں، جہانگیر ترین ایک تعویز دھاگے کی مار نہ نکلے۔ عبدالعلیم خان عمران نیازی کو اسلام آباد میں مل کر واپس آ رہے تھے ایک دوست کو فون کیا کہ بات پکی ہو گئی، وزارت اعلیٰ مل گئی ہے، دوست نے کہا کہ شیروانی کا بندوبست کروں؟ تو کہنے لگے کہ نہیں شیروانیاں بہت ہیں۔ پھر کیا ہوا کہ کلر کہار تک پہنچتے ہیں اور نیب کا فون آتا ہے کہ کل آپ تشریف لائیں پھر نیب اور جیل کے چکر رہے، چودھری پرویز الٰہی نے بھی اس کام میں اپنا حصہ ڈالا۔ عبدالعلیم خان صاحب نیب حکام کے پاس بیٹھے تھے کہ ٹیکر چل گئے، بریکنگ نیوز آ گئی عثمان بزدار پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ ہوں گے جس پر جناب عبدالعلیم خان نے کہا کہ لیں جی میری جان چھوٹ گئی، سیاست کی رُکی ہوئی سانس نکل گئی۔ وزیر اعلیٰ کا ہی رولا تھا لہٰذا بات ختم ہوئی۔ اس کے بعد پھر خان صاحب باہر آ گئے۔ نیازی صاحب کو وطن عزیز پر مسلط کرنا ایک انتقام تھا، نہ جانے کس بات کا انتقام؟ شاید یہاں ختم نبوت کو نہ ماننے والے غیر مسلم قرار دیئے گئے اس بات کا انتقام، شاید وطن عزیز مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے بھارت کی شہ رگ پر بیٹھا تھا، اِس کا انتقام، شاید یہ دھرتی مشرقی روایا ت کی امین ہے اس کی روایات کو زمین بوس کرنے کا انتقام تھا۔ صدر زرداری کو گوادر اور سی پیک، ایران گیس پائپ لائن معاہدہ کرنے کا انتقام، میاں نواز شریف کو انفرا سٹرکچر دینے ایٹمی دھماکے کرنے کے جرم کا انتقام 75 سال میں لیے گئے قرضے کا 80 فیصد ساڑھے تین سال میں لیا، کہاں لگا کچھ پتہ نہیں یہ وطن عزیز سے کیا کم انتقام تھا کہ بزدار جیسی ہستی کو 14 کروڑ کے صوبے کا وزیراعلیٰ بنا کر اعظم خان، گوگی اور مرشد کی کرپشن کی ان گنت داستانوں نے جو تاریخ رقم کی وہ کس سے انتقام تھا۔ وطن عزیز کو دنیا میں تنہا کر دیا۔ امریکہ کو اتنا Serve کیا کہ ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ پارلیمانی نظام میں بادشاہت بھی نہیں فرعونیت قائم کر رکھی تھی بالآخر اسٹیبلشمنٹ نے جب ملک ڈوبتا دیکھا اپنی ساکھ بر باد ہوتے دیکھی تو سیاسی عدم مداخلت کا فیصلہ کیا جو نیازی صاحب کو سیاسی طور پر لنگڑا کر گیا اور بلاول اور مریم کی بات سچ ہو گئی کہ اگر اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہو جائے تو 8 دن میں نیازی کی حکومت گرا دیں۔ اسٹیبلشمنٹ پوری طرح غیرجانبدار بھی نہ ہوئی تھی کہ نیازی صاحب ماضی بن گئے پھر نکلتے نکلتے جس طرح آئین کا ستیاناس، روایات کو برباد کیا سب کے سامنے ہے یہی لوگ جو آج استحکام پاکستان میں شامل ہوئے ہیں یہ زمین کھود رہے تھے تیرا باپ بھی دے گا آزادی، ریڈ لائن اور نہ جانے کیا کیا باتیں کر رہے تھے۔ شیخ رشید تو ایسے تھا جیسے بھارت میں گھسا ہوا ہے جلا دو، لوٹ لو، آگ لگا دو(در فٹے منہ)۔ ان سب کی تقریریں، ان کے لیڈر کی تقریریں سن لیں کیا وطن عزیز کے خلاف مودی ایسی زبان بول سکتا تھا۔ پھر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے کوششیں جاری تھیں تو ان کے دور کے وزیر خزانہ نے صوبائی وزرائے خزانہ سے کہا کہ آئی ایم ایف کو لکھ دو ہم پیسے واپس نہیں کریں گے۔ بھارت کا تو کوئی بیان نہ تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو گیا مگر پی ٹی آئی اور عمران خان کورس کی صورت دیوالیہ قرار دے رہے تھے۔ پولیس وارنٹ دینے جاتی، بے عزت ہوتی، گرفتاری کے لیے نہتی پولیس پر پٹرول بم پھینکے جاتے۔ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ایک ادارے میں نیازی صاحب کی حمایت کم ہوئی مگر دوسرے ادارے میں ابھی حمایت باقی ہے۔ اس دوسرے ادارے نے تو حد ہی کر دی نئی قانونی تاریخ رقم کر دی۔ ضمانتوں کے انبار اور یلغار کر دی۔ ایسے میں عمران نیازی کی پارٹی نے ٹوئٹر اور سڑکوں پر جو اودھم مچایا حتیٰ کہ یہ لوگ حساس اداروں کے گھروں، دفاتر اور ایئر بیس میں داخل ہو گئے۔ یہ تھا انتقام پاکستان۔ ان جب یہ لوگ آنکھ کھلنے پر اپنی اوقات میں واپس آئے ان کو پتہ چلا کہ ارطغرل کو ہم خواب میں دیکھ رہے تھے۔ عورتوں کو علم ہوا کہ پولیس اور ادارے حرکت میں آ سکتے ہیں؟ جب گیارویں کا پتہ بارہویں کو لگا تو پھر اس طرح تائب ہوئے۔ میں نے اخبار میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے نام پڑھے، صرف ناموں پر نظر تھی، میں سمجھا شاید ان کا جہاز کریش کر گیا ہے۔ ایسے تصویریں آئی ہوئی تھیں جیسے کسی سپرے سے کاکروچ گرے پڑے ہیں، شرمندگی اور ذلت کی تصویریں بنے ہوئے تھے یقینا وطن دشمنی اور احسان فراموشی کا انجام یہی تھا۔ بیرون ممالک انگریزوں اور غیر ملکیوں کو 300 ڈالر دے کر انسانی حقوق کے حوالے سے جعلی اور بوگس رپورٹ بنوائی اور سوشل میڈیا پر چلا دی جاتی ہے، تصدیق ہونے پر ڈیلیٹ، یوں انسانی حقوق کا جھوٹا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ نام بالکل صحیح ہے کہ انتقام میں مبتلا و ملوث لوگ 9 مئی کے سانحہ پر اظہار ندامت کر کے اب استحکام پاکستان کے ارادے کے ساتھ سیاسی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔ ضروری تھوڑا ہے کہ ان کو اقتدار بھی مل جائے۔ کیونکہ سیاست کی عادت ہے، عادت پوری کریں۔ جن لوگوں نے حلقے کے عوام کی خدمت کی ہو گی ترین صاحب، عبدالعلیم خان صاحب، فردوس عاشق اعوان یا چند دیگر لوگ ہو سکتا ہے اسمبلی میں ہوں۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اب یہ انتقام پاکستان سے منہ موڑ کر استحکام پاکستان میں جت گئے ہیں۔ اگر اس جماعت میں عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے ساتھ آنے والوں کو دیکھا جائے تو نام بالکل درست ہے مگر اقتدار کا ہما کوئی ضروری نہیں۔ ویسے بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ کامیاب ہیں۔ ان کے مقاصد مکمل اسی وقت ہو گئے تھے جب انتقام پاکستان والوں کے جتھے کو خیر باد کہہ دیا اور استحکام پاکستان جوائن کر لی۔ اب دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ملکی آئین و قانون کے مطابق سیاست کریں۔

Leave a Reply