Istehkam Pakistan party: yeh ko naya “istehkam” nahi !

!استحکام پاکستان پارٹی: یہ کوئی نیا ”استحکام“ نہیں




امریکا میں ٹو پارٹی سسٹم ہے، ایک ڈیمو کریٹک اور دوسری ری پبلکن۔ انڈیا میں تقریباً ٹو پارٹی سسٹم۔ کینیڈا، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں آپ دیکھ لیں آپ کو کم سے کم سیاسی پارٹیاں نظر آئیں گی۔ مگر جو ہوں گی وہ مضبوط ہوں گی۔ اُن کا انٹرنل سسٹم بہت مضبوط ہو گا۔ تبھی یہ لوگ اچھی قیادت ملک کو دیتے ہیں تا کہ ملک ترقی کر سکے۔ مگر یہاں ہر دو چار سال بعد یا تو نیا سیاسی اتحاد وجود میں آتا ہے، یا نئی پارٹی بنا دی جاتی ہے۔ اب جب 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کے لیے حالات خراب ہوئے تو ایک نئی پارٹی وجود میں آ چکی ہے۔ جس کا نام استحکام پاکستان پارٹی ہے۔ اس نئی جماعت میں عمران اسماعیل، علی زیدی، فواد چودھری، عامر کیانی، محمود مولوی، جے پرکاش، مراد راس، فردوس عاشق اعوان، فیاض چوہان، نعمان لنگڑیال، ظہیر الدین علیزئی، جاوید انصاری، طارق عبداللہ، نوریز شکور، رفاقت علی گیلانی، ممتاز مہروی، مہر ارشاد کاٹھیا، عثمان اشرف، جلیل شرقپوری، خرم روکھڑی، دیوان عظمت، جی جی جمال اور اجمل وزیر سمیت پی ٹی آئی کو خدا حافظ کہنے والے دیگر کئی ارکان بھی شامل ہیں۔
اگر ہم تاریخ کو کھنگالیں تو یقینا آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان جماعتوں کی ہمیشہ کوئی خاص اہمیت نہیں رہی۔ جیسے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں ابھی تک رکیں نہیں، جنرل ضیا الحق نے اقتدار پر غیر آئینی طور پر قابض ہونے کے بعد 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کرا کر ملک کی سیاست میں ایسی تفریق پیدا کی جس میں سیاسی احترام زمیں بوس ہو گیا، عدم برداشت بڑھتی چلی گئی، اگرچہ اسمبلی کا وجود غیر جماعتی تھا لیکن پارلیمنٹ آزاد گروپ اور سرکاری گروپ میں تقسیم ہو گئی، حسبِ روایت سرکاری گروپ پاکستان مسلم لیگ کے نام سے منظرِ عام پر آیا لیکن جلد ہی محمد خان جونیجو کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلم لیگ سرکاری گروپ مسلم لیگ جونیجو گروپ کی شکل اختیار کر گیا۔
اس سے تھوڑا پہلے کی تاریخ چیک کر لیں۔ جب جنرل ایوب کے زیر سایہ کنونشن لیگ وجود میں آئی، حامی سیاسی جماعتوں کو ایوب خان کی زیر قیادت کنونشن لیگ کی سیاست میں ضم ہونا پڑا۔ لیکن یہ سب خرچ ہوتی گئیں۔ البتہ 1993 میں نوازشریف نے اپنی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے نکال لیا، بچ گئے۔ مشرف دور میں ق لیگ بنی، تمام حامی جماعتیں اور گروہ حصہ بنے۔ آج وطنی سیاست سے باہر ہیں۔ یعنی جہانگیر خان ترین کی طرح ”بڑوں“ نے غلام مصطفیٰ جتوئی سے این پی پی یعنی نیشنل پیپلز پارٹی بھی بنوائی۔ حالانکہ انہوں نے بحالی جمہوریت تحریک (ایم آر ڈی) میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب انہیں 1983 اور 1985 میں گرفتار کیا گیا۔ تو اس کے بعد انہوں نے نیشنل پیپلز پارٹی کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ کئی بڑے لیڈروں نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ مصطفی جتوئی خود اس پارٹی کے چیئرمین تھے۔ پھر پاکستان مسلم لیگ (جونیجوگروپ) بنی۔ اس کا قیام 1993 میں عمل میں آیا اور یہ پارٹی ن لیگ سے ناراض اراکین پر مشتمل تھی لیکن فلاپ ہوئی اور 2004 میں مسلم لیگ ہی میں ضم ہو گئی۔
پھر 2015 میں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنماؤں نے اس عزم کے ساتھ ایک نئی پارٹی تشکیل دی کہ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی سابق چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے ورثے کو بچانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز کے نام سے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کرائی جانے والی اس سیاسی جماعت کے قیام کا باضابطہ اعلان اس کے صدر صفدر عباسی نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ جہانگیر خان ترین گروپ کی طرح اس وقت بھی پیپلز پارٹی ورکرز میں صفدر عباسی کی اہلیہ ناہید خان، ساجدہ میر، رانا رضوی، عذرا بانو، صبیحہ سید، ابن رضوی، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل احسان، فیاض خان، رائے قیصر، ایس ایچ بخاری، نواب خٹک اور پی پی یوتھ ونگ کے سابق صدر شکیل عباسی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ لیکن پتہ کریں یہ پارٹی اب کہاں ہے؟ لہٰذا اس وقت جو لوگ جہانگیر ترین کی استحکامِ پاکستان پارٹی میں پہنچے ہیں تو دوبارہ جب سیاست انگڑائی لے گی تو اسٹیبلشمنٹ کی ساتھی جماعتوں کا خرچ ہو جانا مقدر بنے گا۔ کیوں کہ خود جہانگیر ترین صاحب کی اپنی ساکھ اتنی متاثر کن نہیں ہے، نہیں یقین تو تحریک انصاف کے دور ہی میں بننے والے چینی سکینڈل کو یاد کر لیں۔ جب تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو شوگر کمیشن کی تفتیشی رپورٹ جاری کی گئی جس میں ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے جہانگیر ترین کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
قصہ مختصر کہ اس وقت جو جماعت عوام کے لیے بنائی گئی ہے، جسے اس وقت ”کارکنوں“ کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں انہیں ان کی اہمیت کا اس وقت اندازہ ہو گا جب یہ لوگ عوام کے درمیان آئیں گے۔ شاید لوگ انہیں قبول بھی کر لیں کیوں کہ اس پارٹی میں موجود تقریباً سبھی الیکٹیبلز ہیں۔ جو اپنے اپنے حلقوں میں تو کم از کم جیت جائیں گے، یا جتوا دیے جائیں گے۔ رہی بات عمران خان کی تو وہ اس وقت یقینا ساری صورتحال دیکھ رہے ہوں گے اور دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ہی دوستوں کو ”گل“ کھلاتا دیکھ رہے ہوں گے۔ ان کے لیے میں صرف یہی کہوں گی کہ بعض اوقات دوبارہ وزیراعظم بننے سے زیادہ اہم ملک کا مستقبل ہوتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل کی مثال لے لیں۔ چرچل نے جنگ عظیم دوم جیتی لیکن پھر بھی الیکشن ہار گیا۔ چار سال بعد پھر الیکشن لڑا اور جیت گیا۔ اندازہ کریں، برطانوی قوم نے اس وزیراعظم کو ووٹ نہیں دیا جس نے انہیں جنگ عظیم دوم میں فتح دلائی تھی تو کیا چرچل تاریخ میں ختم ہو گیا یا دوبارہ وزیراعظم نہیں بنا؟ تاریخ واضح نہیں ہے ورنہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ چرچل کے خلاف امیدوار کی کسی نے ”غیب“ سے مدد کی ہو۔ لیکن حالات صدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس لیے تمام سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنی ذاتی انا چھوڑ کر ملک کا سوچیں جہاں ہزاروں ارب روپے خسارے کا بجٹ پیش کیا جا چکا ہے، مگر اس طرف کوئی دھیان دینے کو تیار نہیں!

Leave a Reply