Naqis gza aur isky muzamrat

ناقص غذا اور اس کے مضمرات




ہمارے جیسے ملک میں جہاں آدھی سے زیادہ آبادی غربت کا شکار ہو اور بھوک کے مارے ہوئے لوگ کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتے ہیں، تاکہ پیٹ کی دوزخ کو کسی نہ کسی طرح بھرا جاسکتا ہو، ناقص غذا کی بات کرنا بہت عجیب محسوس ہوتا ہے۔

ایک طرف ناقص غذا کی وجہ سے حاملہ خواتین کو صحت کے بہت سے مسائل لاحق ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پورے خاندان کی زندگی عذاب بن جاتی ہے اور دوسری طرف کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے یہ حال ہے کہ ’’ لنگڑا ملے، لُولا ملے، ہر سال ایک ملتا رہے اور پھول ایک کھِلتا رہے۔‘‘

بہرحال اب آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب جو ہے’’ ناقص غذا اور اُس کے نتائج ‘‘۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تندرستی ہزار نعمت ہے مگر شاعر کا کہنا ہے کہ :

تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ

تندرستی ہزار نعمت ہے

کڑوا سچ یہ ہے کہ وطنِ عزیز کی نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور اچھا کھانا تو دور کی بات ہے اُسے پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔

وطنِ عزیز کی ہر حکومت غربت کے خاتمے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن یہ سب محض زبانی خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے، بلکہ سچ پوچھیے تو غربت روز بروز کم ہونے کے بجائے روز بروز مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن میں خودکُشیاں اور طلاقیں شامل ہیں۔ غربت سے تنگ آکر لوگ اپنے جگر گوشے تک فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

ہمیں یاد آرہا ہے کہ ممتاز مزاح اور طنز نگار شوکت تھانوی مرحوم نے کثرتِ اولاد کے حوالہ سے ایک پوری نظم کہی تھی جس کا یہ مصرعہ ہمیں اِس وقت یاد آرہا ہے۔

اے مِرے نورِ نظر لختِ جگر پیدا نہ ہو

برسبیلِ تذکرہ اِسی موضوع پر کسی شاعر کا یہ چَٹپَٹا شعر ملاحظہ فرمائیے اور داد دیجیے۔

عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے

جلوہ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے

دنیا بھر کے خاندان اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے طرح طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں، وہ اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلتے ہیں اور اپنی خوشیاں اور آسائشیں قربان کرتے ہیں۔ اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی آنے والی نسل ناقص غذائیت کا شکار نہ ہو اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنا پیٹ کاٹتے ہیں۔

پاکستان میں ناقص غذا کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔ مضرِ صحت غذا کی جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے۔ کھاتے پیتے گھرانوں تک کے لوگ باسی یا دو تین روز کا رکھا ہوا باسی کھانا استعمال کرتے ہیں جو مضرِ صحت ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ متبادل غذا کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔سبزیوں اور گوشت کا توازن نہیں ہوتا۔ مختلف شعبوں میں ترقی کے باوجود ناقص اور مضرِ صحت غذا کا استعمال لوگوں کی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھانا چاہیے؟

ہمارے لیے لازم ہے کہ اپنی غذا کی جانب سب سے زیادہ اور بھرپور توجہ دیں تاکہ صحت کے لیے طرح طرح کے مسائل پیدا نہ ہوں اور ہم خواہ مخواہ مختلف قسم کی بیماریوں کا نشانہ نہ بنیں۔ ایک اور قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں متوازن غذا سے زیادہ مزے اور ذائقہ کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔

اگر ہم اپنے کھانوں میں غذائیت کا خیال رکھیں تو وطنِ عزیز میں اچھی صحت کا مسئلہ بہت حد تک حل کیا جاسکتا ہے۔

بہت سی بیماریاں خصوصاً معدہ کی بیماریاں ہماری لاپرواہی سے پیدا ہوتی ہیں، جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اپنے کیے ہوئے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ناقص خوراک وطنِ عزیز میں خواتین اور بچوں کی صحت کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

اِس کے نتیجہ میں نہ صرف پورے خاندان کو تکلیف اور پریشانی اٹھانا پڑتی ہے بلکہ اچھی خاصی رقم علاج معالجہ پر خرچ کرنا پڑتی ہے۔اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ناقص غذا کے استعمال سے لاکھوں کی تعداد میں بچے طرح طرح کی پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں جن میں اعضاء کی بڑھت نہ ہونا اور اعضاء کے ٹیڑھے میڑھے ہونے کی شکایت عام ہے۔

اِس کے علاوہ دل و دماغ کی مختلف بیماریاں بھی شامل ہیں جن کا کوئی علاج بھی ممکن نہیں۔ اِس کے نتیجہ میں قوم کا ایک خاصہ بڑا حصہ صحت سے محروم ہے اور معاشرتی پریشانیاں اِس کے علاوہ ہیں۔

یہ حالت انتہائی تشویشناک ہے اور حالات کا تقاضہ ہے کہ متوازن غذا کی جانب فوری اور بھرپور توجہ دی جائے۔ہمارے ملک کا ایک اور سنگین مسئلہ خوردنی اشیاء میں ملاوٹ کا ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب کھانے پینے کی تمام اشیاء بالکل خالص ہوا کرتی تھیں اور ملاوٹ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن اخلاقی گراؤٹ اور ناجائز منافع خوری کی عادت کے نتیجہ میں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اِسے اخلاقی جرم تصور کیا گیا۔

نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ملاوٹ کا کاروبار اب عام ہوچکا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک میں ملاوٹ کو بہت بڑا جرم قرار دیا جا چکا ہے اور اِس میں ملوث ملزموں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے اور انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

یوں کہنے کو تو ہمارے ملک میں بھی ملاوٹ ایک بہت بڑا ناقابلِ معافی جرم ہے، لیکن ملاوٹ کرنے والے اکثر و بیشتر محکمہ فوڈ کی بدعنوانی کی وجہ سے پکڑے نہیں جاتے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے ٹی وی پر ایک بہت اچھا پروگرام دکھایا جاتا تھا جس کے انتہائی دبنگ اور بہادر پروڈیوسر اور اُن کی ٹیم خطرات مول لے کر غذاؤں میں ملاوٹ کرنے والے مجرموں کے ٹھکانوں پر چھاپے مار کر انھیں بے نقاب کرتی تھی۔

یہ پروگرام بہت عرصہ تک جاری رہا اور بہت مقبول ہوا جس کے نتیجہ میں بہت سے مجرم پکڑے گئے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اچانک یہ پروگرام بند ہوگیا اور کسی دوسرے ٹی وی چینل پر وہ ایسا پروگرام پیش کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

Leave a Reply