Punjab police ka mehboob IG

پنجاب پولیس کا محبوب آئی جی




پنجاب پولیس کے محبوب آئی جی ڈاکٹر عثمان انور نے عوام، خصوصاًاپنے ماتحتوں کے لئے جو کمالات دکھائے ان کا احاطہ ایک آدھ کالم میں کرنا شاید مشکل ہو جائے۔۔ میں نے ان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، میری ان سے صرف ایک ملاقات تھی، آج سے چند برس پہلے میرے محترم بھائی پروفیسر عامر عزیز کے ساتھ ایک فراڈ ہوا تھا، اس کے ملزمان کی گرفتاری کے لئے میں ان کے پاس گیا، تب وہ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور تھے، میں نے انہیں میسج کیا، ان کی کال آگئی اور ملاقات کا وقت طے ہوگیا، چند لمحے ان کے پاس بیٹھنے سے مجھے یہ اندازہ ہوا یہ شخص مہینوں کے کام منٹوں میں نمٹانے کی بھرپور نیت ہی نہیں صلاحیت بھی رکھتا ہے، میں نے محسوس کیا اس کی ”قوت فیصلہ“کمال کی ہے، اس ملاقات کے بعد میرا ان سے رابطہ منقطع ہوگیا، ایک روز خبر پڑھی وہ پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ بن گئے ہیں، میں نے انہیں مبارک کا میسج کیا اور بڑی محبت سے ان کا جوابی میسج آگیا، بے شمار پولیس افسران سے میرا ذاتی تعلق ہے، خصوصاً گزشتہ چند برسوں سے جو آئی جی پنجاب بنے ایک دو کو چھوڑ کے سب کے ساتھ میرے بہت ذاتی اور قریبی مراسم ہیں، سبھی بہت کمال کے لوگ ہیں، ان سب کی اپنی خصوصیات اپنی خوبیاں ہیں، جس سیاسی ماحول میں انہیں کام کرنا پڑا، خصوصاً سابق وزیراعلیٰ ”بودار”کے ساتھ گزارا کرنے سے ان کے ضمیر پر کتنا بوجھ پڑا؟ یہ الگ داستان ہے، ان میں کئی قصے بڑے مزے کے ہیں، اگر اس دور کے کچھ آئی جی صاحبان، خان صاحب اور ان کی”بودار سرکار“ کے وہ قصے بیان کرنا شروع کر دیں مجھے یقین ہے خان صاحب کا یہ ”بیانیہ“ مزید خاک میں مل جائے گا کہ وہ ”تبدیلی“ چاہتے تھے، خان صاحب صرف تباہی چاہتے تھے اور یہ مقصد وہ پورا کر کے رہے۔۔
بے شمار اعلی افسران مجھ سے ملنے آتے ہیں، میں بھی ان سے ملنے جاتا ہوں، اس تعلق کو”سوشل میڈیا“ کی دنیا سے میں نے اس لئے اب دور کر لیا ہے اس سے نہ صرف میرے لئے بلکہ میرے دوست افسروں کے لئے بھی مسائل پیدا ہوتے تھے، میرے لئے مسائل یہ پیدا ہوتے تھے کسی اعلیٰ افسر کو میرے گھر میں دیکھ کر بے شمار لوگ اپنے کچھ ناجائز مسائل کو جائز بنا کر میرے پاس لے آتے تھے،میں ان کی سفارش بھی کر دیتا تھا، مگر اکثر معاملات میں مجھے سبکی اٹھانا پڑتی تھی کہ جو واقعات لوگ مجھے بتاتے تھے حقائق ان سے بالکل مختلف ہوتے تھے، چنانچہ اب کسی کی سفارش کرنے سے پہلے میں ذاتی طور پر تسلی کر لیتا ہوں کہ اس کا مسئلہ کتنا جائز ہے، ہمارے لوگوں کی عجیب و غریب سائیکی ہے، پچھلے دنوں ایک ”فیس بک فرینڈ“ مجھ سے ملنے آئے، انہوں نے فرمایا ”فلاں ڈی پی او سے آپ کا ذاتی تعلق ہے، میں نے فیس بک پر دیکھا تھا کچھ روز پہلے وہ آپ کے گھر بھی آئے تھے، میرا ایک بہت ہی جائز کام ہے، آپ میری ان سے سفارش کر دیں“، میں نے فوری طور پر ڈی پی او صاحب کو کال کی ان سے کہا”میرے ایک فیس بک فرینڈ آئے ہیں، وہ فرما رہے ہیں ان کا کوئی بہت ہی جائز کام ہے، وہ کل آپ سے ملیں گے،آپ پوری تسلی کر لیجئے گا،اگر ان کا کام واقعی جائز ہوا تو مہربانی فرمائیے گا اور یوں سمجھئے گا میں خود چل کر آپ کے پاس آگیا ہوں“، فون بند ہوا وہ”فیس بک فرینڈ“ مجھ سے کہنے لگے ”سر آپ نے تو بہت”کمزور سفارش“ کی ہے، اس سے تو بہتر تھا آپ سفارش نہ کرتے“، میں نے پوچھا”اچھا آپ بتائیں مجھے کیا کہنا چاہئے تھا؟“، وہ بولے”آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا میرا ایک قریبی عزیز آپ سے ملے گا آپ نے لازمی اس کا کام کر کے مجھے بتانا ہے“،مجھے ان کی اس بات پر بہت غصہ آیا، میرا جی چاہا جو ”کیک“ وہ میرے لئے لے کے آئے تھے واپس انہیں پکڑا کر گھر سے نکال دوں، مگر گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا کرنا چونکہ بداخلاقی تھی سو میں نے اپنا غصہ قابو میں رکھا، کچھ دیر بعد وہ چلے گئے، اگلے روز ڈی پی او صاحب کی مجھے کال آئی انہوں نے بتایا”آپ کے ریفرنس سے جو صاحب آج مجھے ملے ہیں میں نے انہیں پوری عزت دی، مگر ان کا مسئلہ بالکل جائز نہیں تھا لہٰذا آپ کے کہنے کے مطابق میں نے معذرت کر کے انہیں واپس بھیج دیا ہے“۔۔
یہ تو میں نے اپنے نقصان کا بتایا، افسروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کو سوشل میڈیا پر لانے سے افسروں کا نقصان یہ ہوتا تھا ان کے بے شمار ایسے بیج میٹس، یا سینئرز ان سے ناراض ہو جاتے تھے جن کے خلاف میں نے لکھا ہوتا تھا، ہمارے ہاں ناراضگی اب صرف ناراضگی نہیں رہتی، اس میں حسد و انتقام بھی شامل ہو جاتا ہے، جن دنوں میں وزیراعلیٰ ”بودار“ کے خلاف لکھتا تھا، مجھے پنجاب کے ایک ضلع میں جانے کا اتفاق ہوا، اس ضلع کے ڈی پی او میرے چھوٹے بھائی جیسے تھے، انہوں نے اس وزٹ میں مجھے بہت عزت دی، وہ مجھے اس شہر کے کچھ تاریخی و ثقافتی مقامات دکھانے اپنے ساتھ لے گئے، میں نے اس وزٹ کے چند خوبصورت اور یادگار مناظر اپنی فیس بک وال پر لگائے تو ”وزیراعلیٰ بودار“ نے اس وقت کے آئی جی کے ذریعے اس ڈی پی او کو ناراضگی کا سخت پیغام بھیجا، بعد میں اسے تبدیل بھی کر دیا، اسی طرح ایک بار میں نے اپنے کالم میں اپنے ایک کمشنر دوست کی تعریف کر دی، اسی کالم میں اس وقت کے وزیراعلیٰ کی کچھ ناقص پالیسیوں پر تنقید بھی کر دی، کالم شائع ہونے کے اگلے ہی روز کمشنر صاحب کو او ایس ڈی بنا دیا گیا، ان واقعات کے بعد یہ راز مجھ پر کھلا”اگر کسی کالم یا وی لاگ وغیرہ میں کسی اچھے یا دوست افسر کی تعریف کرنی ہو تو اس دوست افسر کو شر و انتقام سے بچانے کے لئے اسی کالم میں تھوڑی بہت جھوٹی سچی تعریف ان کے سینئرز کی یا اس وقت کے حکمرانوں کی بھی کر دی جائے، ہاں کسی افسر سے کوئی بدلہ لینا ہو تو کسی کالم میں اس کی تعریف کر کے اس کے سینئرز کو برا بھلا کہہ دیں اس افسر کو فوراًاو ایس ڈی بنا دیا جائے گا۔۔
یہ کالم میں نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی کچھ ”خصوصیات“ پر لکھنا تھا بیچ میں کہانیاں اور سنانی پڑ گئیں، نگران حکومت میں ان کی جب تقرری ہوئی میرا خیال تھا وہ چونکہ گریڈ اکیس کے ایک جونیئر پولیس افسر ہیں اور آئی جی پنجاب عموماًگریڈ بائیس کا ہوتا ہے تو ممکن ہے اس وقت پنجاب پولیس میں ان سے جو سینئرز ہیں وہ ان کی ماتحتی میں کام کرنے سے انکار کر دیں،جیسے انعام غنی کو آئی جی پنجاب بنایا گیا تو ان سے سینئر اور طبیعت میں ان سے بالکل مختلف ایک انتہائی درویش، ایماندار اور شاندار پولیس افسر طارق مسعود یٰسین رخصت پر چلے گئے تھے، ڈاکٹر عثمان انور نے بطور آئی جی پنجاب چارج سنبھالنے کے بعد پنجاب پولیس میں موجود اپنے ایک دو سینئرز کو اتنی عزت دی انہیں ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے اسے اپنے لئے اعزاز سمجھا، مجھے ایک واقعہ یاد آگیا، طارق سلیم ڈوگر کو جب آئی جی پنجاب بنایا گیا پنجاب پولیس میں تعینات ایک انتہائی درویش صفت پولیس افسر شیخ اسرار احمد ان سے سینئر تھے،طارق سلیم ڈوگر کو جب اطلاع ملی انہیں آئی جی پنجاب بنانے کا فیصلہ ہوا ہے وہ فوراً شیخ اسرار احمد کے گھر پہنچے، ان سے کہنے لگے‘”پائی جان حکومت نے مینوں آئی جی پنجاب بنان دا فیصلہ کیتا اے، جے تہاڈی اجازت ہووے میں ایہہ فیصلہ قبول کر لاں؟“، شیخ اسرار احمد نے انہیں گھٹ کے جپھی ڈالی اور ایڈوانس مبارک دے کر بڑی عزت سے انہیں رخصت کر دیا، اس کے بعد طارق سلیم ڈوگر جتنا عرصہ آئی جی رہے ان کے ایڈیشنل آئی جی شیخ اسرار احمد جب بھی ان کے دفتر آتے وہ اپنی کرسی چھوڑ کر شیخ صاحب کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے، ان سے فون پر بات کرنی ہوتی پہلے خود لائن پر رہتے، ان سے کوئی میٹنگ کرنی ہوتی خود ان کے دفتر چلے جاتے۔۔ ڈاکٹر عثمان انور اخلاقیات کی اس بلندی میں ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئے، ان کے کمپلیکس فری ہونے کا معاملہ یہ ہے سینئرز کو تو چھوڑیں اپنے کئی جونئیرز کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لئے بھی اکثر انہیں بلانے کے بجائے خود ان کے دفتروں میں چلے جاتے ہیں (جاری ہے)

Leave a Reply