Audio leaks : chund aham qanoni sawalat

آڈیو لیکس: چند اہم قانونی سوالات




پچھلے کچھ عرصے سے آڈیو لیکس کا چرچا ہے۔ بعض اوقات کسی ویڈیو کا بھی غلغلہ اٹھتا ہے اورتماش بین قوم چسکے لینا شروع کردیتی ہے۔ ان آڈیوز/وڈیوز کے جواز کی سب سے قوی “دلیل”کے طور پر”قومی مفاد” کا ذکر کیا جاتا ہے اور اس سوال کو پس منظر میں دھکیل دیا جاتا ہے جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جسٹس بابر ستار نے اٹھایا کہ یہ آڈیوزریکارڈ کون کرتا ہے؟ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر جاری یہ ساری گفتگو خلطِ مبحث کا شکار ہوچکی ہے جس سے نکلنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین امورکو الگ الگ دیکھا جائے: ایک، کسی آڈیو کی صحت یا صداقت کا پتہ کیسے چلایا جاتا ہے؟ دوم، کسی آڈیو کی قانونی حیثیت کیسے متعین کی جاتی ہے؟ اور تین، کیا کسی آڈیو کی صحت و صداقت اور قانونی جواز ثابت ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ بطورِ ثبوت عدالت میں پیش کی جاسکے؟ اس آخری سوال کو دوسرے زاویے سے یوں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ کیا کسی آڈیو کے غیر قانونی ہونے کی صورت میں وہ عدالت میں بطورِ ثبوت پیش کرنے کے قابل نہیں رہتی، خواہ اس آڈیو کی صحت ثابت ہوچکی ہو؟ جہاں تک کسی ریکارڈنگ کے مستند ہونے (authenticity) کا تعلق ہے، اس کا تعین فارنزک جانچ سے کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے بعض ادارے، خصوصاً پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی، کا کام معیاری سمجھا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے جہاں بہترین معیار پر ریکارڈنگ ممکن ہوئی ہے ، وہاں یہ بھی خطرہ بڑھ گیا ہے کہ کسی ریکارڈنگ میں گڑ بڑ (doctoring) کی گئی ہو یا ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہو۔ اس لیے قانونی لحاظ سے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی ایسی رپورٹ بہرحال ایک ماہر کی رائے ہوتی ہے اور اس پر ان تمام اصولوں کا اطلاق ہوتا ہے جو ماہر کی رائے کیلئے قانونِ شہادت میں مقرر کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک اصول یہ ہے کہ ماہر کو باقاعدہ طور پر عدالت میں پیش ہو کر اپنی رائے بیان کرنی ہوگی، اس کی وجوہات اور دلائل کی وضاحت کرنی ہوگی اور جرح اور سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کسی ریکارڈنگ کے قانونی جواز (legality) کے متعلق کئی امکانات ہوتے ہیں: ایک یہ کہ گفتگو کرنے والے شخص/اشخاص کی مرضی سے ریکارڈنگ کی گئی ہو۔ اس صورت میں ریکارڈنگ کے عمل کو قانونی طور پر جائز مانا جائے گا (اگرچہ اس سے بھی کچھ مستثنیات ہوسکتے ہیں)، لیکن اس ریکارڈنگ کو کسی تیسرے شخص تک پہنچانے یا اس کی اشاعت کا قانونی جواز الگ سے ثابت کرنا ہوگا کیونکہ بعض اوقات قانون نے کسی مخصوص گفتگو کی اشاعت سے روکا ہوتا ہے، جیسے وکیل اور موکل، طبیب اور مریض یا میاں بیوی کے درمیان گفتگو کو قانونِ شہادت کی اصطلاح میں communication privilegedکہتے ہیں اور چند بہت ہی مخصوص صورتوں میں مخصوص شرائط کے ساتھ ہی ان کی اشاعت کی اجازت ہوتی ہے۔ عام حالات میں انھیں آگے کسی اور کے سامنے بیان کرنے کی قانون نے اجازت نہیں دی۔ بعض اوقات گفتگو اس مخصوص نوعیت کی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی گفتگو کرنے والے اس کی “پرائیویسی کی جائز توقع” ( privacy of expectation legitimate) رکھتے ہیں، جیسے کسی مخصوص واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی گفتگو اس توقع پر کی جاتی ہے کہ اسے گروپ سے باہر کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں کیا جائے گا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ گفتگو کرنے والے کی مرضی کے بغیر ریکارڈنگ کی جائے۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ یہ ریکارڈنگ معمول کے طور پر کی گئی ہو، نہ کہ اس مخصوص واقعے کو ریکارڈ کرنے کیلئے۔ گھروں کے باہر یا دفتروں کے اندر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ اس کی مثال ہے۔ ایسی ریکارڈنگ کو قانوناً غلط نہیں کہا جاسکے گا لیکن اس کی اشاعت پر اوپر مذکورہ پابندیاں ہوسکتی ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اس گفتگو کی ریکارڈنگ خصوصاً کی گئی ہو۔ یہ وہ قسم بن جاتی ہے جو اس کا لم کا موضوع ہے۔ یہاں دو امکانات پائے جاتے ہیں: ایک یہ کہ اس ریکارڈنگ کیلئے مْجاز اتھارٹی سے باقاعدہ اجازت لی گئی ہو؛ دوسری یہ کہ اجازت لیے بغیر اور قانونی شرائط پوری کیے بغیر یہ ریکارڈنگ کی گئی ہو۔ پہلی صورت میں ریکارڈنگ جائز ہوگی؛ البتہ ریکارڈنگ کی اجازت دینے سے قبل مْجاز اتھارٹی کو مطمئن کرنا پڑے گا کہ ایسی کسی ریکارڈنگ کی ضرورت کیا ہے اور شبہے کی معقول وجہ ( suspicion reasonable) یا جرم کے سبب کے غالب گمان ( cause probable ) کے متعلق وضاحت دینی ہوگی۔ دوسری صورت یقیناً ناجائز ہے، الا یہ کہ کچھ فوری حالات ( circumstances exigent) ہوں یا ثبوت کے ضائع ہونے کا قوی اندیشہ ( evidence of destruction of danger ) ہو اور مْجاز اتھارٹی سے اجازت لینے کا موقع میسر نہ ہو۔ ہر دو صورتوں میں ریکارڈنگ کی اشاعت کا جواز الگ سے ثابت کرنا ہوگا۔ ریکارڈنگ اور اشاعت کے قانونی جواز کے ثبوت کے بعد بھی ریکارڈنگ بطورِ ثبوت عدالت کے سامنے قابلِ ادخال ہونے (admissibility) کا سوال برقرار رہتا ہے؟ مثلاً جو چیز مقدمے کے حقائق سے متعلق (relevant) نہ ہو، وہ قابلِ ادخال نہیں ہے، خواہ وہ بذاتِ خود مستند بھی ہو اور قانونی بھی۔ اسی طرح جہاں قانون نے اصل ثبوت ( primary evidence) کا پیش کرنا ضروری قرار دیا ہو، وہاں نقل یا ثانوی ثبوت ( secondary evidence) ناقابلِ ادخال ہوتا ہے۔ پھر ثانوی ثبوت کے قابلِ ادخال ہونے کیلئے الگ شرائط ہیں۔ ان سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ جو معلومات غیرقانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہوں، انھیں عدالت کے سامنے بطورِ ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس عدم جواز کی سب سے قوی دلیل آئینِ پاکستان کی دفعہ 4 ہے جس نے ہر شخص کو، خواہ مجرم، ملزم یا مشتبہ فرد ہو، یہ تحفظ دیا ہے کہ اس کے خلاف جو بھی کارروائی ہووہ قانون کے مطابق ( with Law accordance in ) ہی کی جائے گی۔ اسے قانون کی صحیح سند ( due process of law) کا اصول کہا جاتا ہے۔ یہ اصول آئین کی دفعہ 9 میں زندگی اور آزادی کے حق کے بارے میں بھی طے کیا گیا ہے اور دفعہ 14 میں تکریمِ آدمیت اور نجی زندگی کے تحفظ کے حق پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر قومی مفاد میں بعض عہدیداروں یا نجی افراد کی گفتگو کی ریکارڈنگ ضروری سمجھی جائے ، تو لازم ہے کہ اس کے جواز کیلئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور پھر اس قانون کی حدود کے اندر رہ کر ہی یہ کام کیا جائے۔ واضح رہے کہ اعلی عدلیہ ایسے کسی بھی قانون کی صحت کا جائزہ ان آئینی اصولوں پر لے سکے گی جن میں چند یہاں ذکر کیے گئے ہیں۔

Leave a Reply