Be wafaon ka jumma bazar , istehkam nahi lata !

! بے وفاؤں کا جمعہ بازار، استحکام نہیں لاسکتا




اﷲ کا شکر ہے کہ 9 مئی کو ریاست کے خلاف انتہائی خطرناک بغاوت ناکام ہوگئی ورنہ ملک کے لیے خوفناک نتائج برآمد ہوتے۔ ظاہر ہے کہ باغیوں اور بلوائیوں کا وہی انجام ہوگا جو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

ذرا سی دھوپ چمکی تو قریب ترین ساتھی ’’مرشد‘‘ کو چھوڑ چھاڑ کر چھاؤں کی تلاش میں بھاگ نکلے۔ یہی ہونا تھا، اس لیے کہ ’’مرشد‘‘ میں ایک بڑے لیڈر کی کوئی خاصیّت ہی نہیںتھی، کسی دوسرے کے لیے اخلاص ہے نہ کردار بے داغ ہے، نہ ڈلیور کرنے کی صلاحیّت ہے اور نہ جرأت اور بہادری ہے۔ جو لیڈر گرفتاری سے ڈرتا ہے ، عورتوں اور بچوں کواپنی ڈھال بناتا ہے، اس کے ساتھ کون کھڑا ہوگا؟

بہت سے دوست کہا کرتے تھے کہ ’’آپ اپنے کالموں اور تحریروں میں ’’مرشد‘‘ کے کسی بیان یا بیانیے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے حالانکہ وہ مقبول بھی ہے اور آپ کے بارے میں بھی بڑی اچھی رائے کا اظہار کرتا رہا ہے‘‘۔

واقعی یہ درست ہے کہ میں نے اسے کبھی ایسا لیڈر نہیں سمجھا جس کے کسی بیان یا تقریر کو سنجیدگی سے لیا جائے، اس لیے کہ میں اسے اس کے پیروکاروں سے زیادہ جانتا تھا اور ان معلومات (جو اس کے پرستاروں سے بہت زیادہ تھیں) کی بنا پر میں بجا طور پر سمجھتا تھا کہ وہ کوئی نظریاتی آدمی نہیں ہے بلکہ اس کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔

اس کے بیان اور بیانیے تیار کرنے والے تھنک ٹینک (جو ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی) اس کے لیے ایسے Catchy Slogans  (دلکش نعرے) تراشتے تھے جو عوام اور خصوصاً نوجوانوں کے جذبات کو اپیل کریں۔ اسے یہ سب کچھ رومن اردو میں لکھ کر دیا جاتا تھا اور وہ انھیں پڑھ دیتا تھا۔

اس کے بعض قریب ترین دوست نجی محفلوں میں یہ حقیقت ایک دوسرے سے شیئر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے کہ ’’ہمارے چیئرمین صاحب کا نظریہ کسی بھی طریقے سے حکومت حاصل کرنا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کا نظریہ صرف pleasure points  کا حصول ہے‘‘ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے اسے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ ملک کی فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ بنائے اور وہی اس پر عملدرآمد کرائے۔

اسے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا کہ رات کو اسے ہدایات موصول ہوجائیں کہ کل فلاں شخص وزیرخزانہ کے طور پر حلف اٹھائے گا، آپ نے بطور وزیراعظم اتنے بجے حلف برداری کی تقریب میں پہنچ جانا ہے۔

اُسے صرف اپنی موج مستی سے غرض تھی، اس میں کوئی دخل نہ دے تو چاہے امور مملکت کوئی اور ادارہ چلاتا رہے، اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔

میں نے 2018 کے الیکشن کے چند روز پہلے شادی کی ایک تقریب میں ایک معروف صحافی اور کالم نگار (جو اس کے سب سے بڑے سپورٹر تھے اور اس کی تقریریں بھی لکھتے تھے) سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مرشد‘‘ میں اتنی بصیرت، صلاحیت اور تدبر ہے کہ وہ ملک کو درپیش مسائل سے نکال لے گا؟ اس پر وہ مجھے سائیڈ پر لے گئے اور کہنے لگے کہ ’’سچی بات تو یہ ہے کہ اس کے پاس نہ وژن ہے، نہ نظریہ اور نہ مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ، بس اللہ نے سراپا اچھا دیا ہے، نوجوان اسے ہیرو مانتے ہیں،بس یہی خوبی ہے اس میں۔ ہم رومن اردو میں اسے لکھ کر دیتے ہیں اور وہ پڑھ دیتا ہے، یہ ہے اس کی سیاست اور نئے پاکستان کا نظریہ‘‘۔

یہ کالم نگار بھی اسی لیے اس کی تقریروں اور بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا کہ اسے یقین تھا کہ جس آدمی کی شخصیت کی تشکیل کرکٹر اور پلے بوائے کی بنیاد پر ہوئی ہے ، سیاست میں دیانتداری اس کا اصول کیسے بن سکتا ہے؟ وہ قانون کی حکمرانی کو دل وجان سے کیسے تسلیم کرسکتا ہے؟ اور گڈگورننس کے ساتھ اس کی وابستگی کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ مجھے علم تھا کہ اسے نہ دیانتداری کے ساتھ محبت ہے اورنہ بددیانتی کے ساتھ کوئی نفرت ہے، اصول پسندی اور رول آف لاء کے ساتھ اس کی کوئیCommitment  ہی نہیں ہے۔

وہ تو بس’’نیا پاکستان‘‘ ’’تبدیلی‘‘ اور ’’حقیقی آزادی‘‘ جیسے Catchy Slogans  کو سیاسی نعروں کے طور پر استعمال کرتارہا ہے۔ مجھے پہلے دن سے ہی اُسکی تقریریں ، بیان اور بیانئے مصنوعی اور بے معنی لگتے تھے اور اس کی ساری سیاست اور مقبولیت ہی جعلی اور مصنوعی سی لگتی تھی اور مجھے یقین تھا کہ کسی بھی وقت پردہ اُٹھ جائے گا، اصلیت کھل کر سامنے آجائے گی اور اس کی سیاست اور مقبولیت کا بت پاش پاش ہوجائے گا۔

اس کے ہدایت کاروں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس کے منہ سے دلکش نعرے اور دلوں میں اترنے والی باتیں کہلوائیں جو مقبول عام ہوگئیں مگر اقتدار میں آنے کے فوراًبعد ہی ملمع اترنا شروع ہوگیا اور نقاب اٹھنے لگے۔

سب سے پہلے یعنی چند مہینوں میں ہی نااہلی اور incompetence  بے نقاب ہوگئی۔ پہلے سینئر سول سرونٹس نے کہنا شروع کیا کہ ’’امور مملکت چلانا موصوف کے بس کی بات نہیں ہے، ان میں تو مسائل سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں ہے‘‘۔ پھر مختلف شعبوں کے ماہرین ملاقاتوں کے بعد اپنی نجی محفلوں میں کہنے لگے کہ “He is not prime minister material”  (ان میں وزیراعظم کے عہدے کی ذمیّ داریاں نبھانے کی بنیادی صلاحیتیں ہی نہیں ہیں) پھر آس پاس کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بیرونی ممالک میں جو شخص بھی موصوف کا میزبان رہا یا اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے جتن کرتا رہا، وہ کابینہ کا حصّہ یا کسی کارپوریشن کا سربراہ بنادیا گیا۔

کچھ لوگ غیرمعمولی ’’خدمات‘‘ کی بناء پر صوبوں کے گورنر بنا دیے گئے۔ موصوف کے دائیں بائیں اور آس پاس بیٹھنے والے سب وہی تھے جو خود کرپشن کے اسکینڈلز میں ملوّث تھے، ان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت ملنے کے بعد مرشد پیسے اور اقتدار کی بے پناہ محبت میں گرفتار ہوگئے تھے۔ ہر ارب پتی کو گلے لگایا اور ہر صاحب ثروث سے ’’نذرونیاز‘‘ وصول کرکے اسے اہم ترین عہدے سے نوازا اور آزاد کشمیر کی وزارت عظمیٰ تک پر سمجھوتہ کرلیا۔

زمان پارک اکثر جانے والے صحافی حالیہ دنوں میں اس کے قریبی ساتھیوں سے علیحدگی میں جب پوچھتے تھے کہ کرپشن کے خلاف جہاد اب ختم ہوچکا یا جاری ہے؟ تو وہ جواب دیتے تھے کہ ’’مرشد جسے سب سے بڑے ڈاکو کہتے تھے، اسے ہماری پارٹی کا صدر بنادیا گیا ہے تو پھر کونسی کرپشن اور کہاں کا جہاد؟ ہماری پارٹی کے صدر صاحب کی پانچ مہینوں کی حکومت میں جو اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے گئے تھے، ہمارے چیئرمین صاحب کو اس پر ذرا بھی اعتراض نہیں تھا۔

2018کے الیکشن میں ہم نے کرپشن والا نعرہ خوب بیچا تھامگر بعد میں ہم نے ضرورت کے مطابق’’حقیقی آزادی‘‘ وغیرہ کے نعرے ایجاد کرلیے۔ پیروکار ایسے ملے ہیں کہ ان میں سوچنے، پرکھنے یا سوال کرنے کی عادت ہی نہیں، اگر وہ صبح ان سے کہیں کہ امریکا سے آزادی چاہیے تو وہ امریکا کے جھنڈے جلادیں گے اور شام کو کہیں کہ نہیں اب آزادی روس سے چاہیے اور اس کے لیے امریکا کی سرپرستی درکار ہے تو پیروکار اُسی وقت امریکی جھنڈوںکی ٹی شرٹیں بنوالیں گے‘‘۔

پی ٹی آئی حکومت نے معیشت اور گورننس کو جس طرح برباد کیا اس کی مثال نہیں ملتی، خارجہ امور کی کارکردگی یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی ایک بھی دوست نہیں رہنے دیا۔ اس کے پڑھے لکھے سپورٹروں پھر بھی اس کے پرستار تھے کیونکہ وہ اس کی شکل، اس کی چال ، اس کی چپل اور اس کے بولنے کا انداز کے دیوانے تھے۔ اس کی حکومت کی کارکردگی دریافت کریں تو اس کے پیروکار اس کی جوانی کی تصویر یں دکھاتے تھے کہ دیکھیں ولایت کی میمیں بھی اُس پر مرتی تھیں۔

ہمسایہ ملک میں عوام نے قیادت کے لیے شکل نہیں دیکھی، انھوں نے ڈلیور کرنے کی صلاحیتیں دیکھ کر قیادت کا انتخاب کیا جس نے ہندوستان کو ترقی یافتہ ملکوں میں شامل کردیاجب کہ ہم چال اور چپل پر ہی فدا ہوتے رہے۔

آج نوجوان مایوس ہیں، خواب اور سراب کو حقیقت سمجھنے والے لاکھوں نوجوانوں کی تالیف قلوب کی ضرورت ہے۔

کسی ارب پتی کے گھر بے وفاؤں کا جمعہ بازار لگادینے سے نہ ملک کے مسائل حل ہوںگے اور نہ سیاسی استحکام آئے گا۔ ہمیں یہاں جعلی نیلسن مینڈیلوں اور نقلی اردوانوں کی ضرورت نہیں، ملک کو مسائل کے گرداب سے اجلے کردار کے وہ افراد ہی نکال سکتے ہیں جو باصلاحیت بھی ہوں اور جرأت مند بھی۔

Leave a Reply