Digital maeshiat

ڈیجیٹل معیشت 




صنفی مساوات ضمنی نہیں بلکہ بنیادی انسانی حق ہے جسے پائیدار ترقی کے اہداف و ممکنات میں شمار کیا جاتا ہے اور وہ ’ایک شعبہ‘ کہ جس میں ’صنفی مساوات‘ کو نمایاں طور پر آگے بڑھانے کی صلاحیت ہے وہ ’ڈیجیٹل معیشت‘ ہے۔ دنیا بھر میں ’ڈیجیٹل معیشت‘ تیزی سے فروغ پا رہی ہے اور اِسے اپنانے کا عمل بھی یکساں تیزی سے جاری ہے۔ سمجھنا ہوگا کہ نئی ٹیکنالوجیوں کی وجہ سے کام کاج اور رہن سہن کے طور طریقے تبدیل ہو رہے ہیں اور یہی اسلوب اِی کامرس‘ سوشل میڈیا‘ فن ٹیک اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمیت صنعتوں کے وسیع حلقے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی میں خواتین کو روزگار‘ انٹرپرینیورشپ اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کے نئے مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن صنفی عدم مساوات ’ڈیجیٹل معیشت‘ کے حصول کی راہ میں بھی حائل رکاوٹ ہے۔ ڈیجیٹل معیشت کا اہم فائدہ یہ ہے کہ اِس کے ذریعے خواتین کو گھر بیٹھے بھی کام کاج کے مواقع میسر آتے ہیں جس میں کل وقتی اور جز وقتی ملازمتی مواقع بھی شامل ہیں جن سے استفادہ کر کے خواتین اپنے کام کاج اور ذاتی زندگی کو متوازن بنانے میں مدد کرسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر‘ وہ خواتین جو دیہی علاقوں میں رہتی ہیں یا ایسی خواتین جنہوں بچوں یا گھر کے بزرگوں کی 
دیکھ بھال جیسی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوتی ہیں ‘ وہ گھر سے باہر ملازمت کے مواقع تک رسائی حاصل نہیں کر سکتیں‘ اُن کےلئے ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا استعمال مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ مزید برآں‘ ڈیجیٹل معیشت خواتین کو اُن کے جغرافیائی علاقوں سے دور دراز کی مارکیٹوںتک رسائی دیتی ہے‘ جس سے اُنہیں آمدنی کے یکساں مواقع میسر آتے ہیں ؛ اُن کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے؛ مزید برآں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز خواتین کو اُن کے مقام سے قطع نظر تعلیم و تربیت جیسی انتہائی ضروری سہولیات تک بھی رسائی فراہم کرتی ہیں۔ آن لائن سیکھنے کے پلیٹ فارم خواتین کو نئی مہارتوں اور علم کے حصول میں مدد کرسکتے ہیں‘ جس سے انہیں اپنے کیریئر میں آگے بڑھنے یا نیا کاروبار شروع کرنے میں مدد مل سکتی ہے خواتین ’معلومات تک رسائی‘ کے حق کا بھی استعمال کر سکتی ہیں جس سے اُنہیں اپنی صحت و تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں حکومتی فیصلوں بارے آگاہی حاصل ہوتی ہے لیکن خواتین خاطرخواہ ٹیکنالوجی سے استفادہ نہیں کر رہیں اور انہیں اکثر آف لائن کی طرح آن لائن بھی امتیازی سلوک اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ جس سے ڈیجیٹل معیشت اپنانے میں خواتین کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ ڈیجیٹل صنفی فرق کی اہم وجہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل مہارتوں تک رسائی کا فقدان ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے کم اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی تک رسائی محدود ہے‘جب تک خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز‘ انٹرنیٹ سے وابستہ ہونے کے زیادہ مواقع فراہم نہیں کئے جائیں گے اُس وقت تک منظرنامہ تبدیل نہیں ہوگا۔ ڈیجیٹل صنفی فرق کی ایک اور وجہ ٹیکنالوجی کے شعبوں اور پیشوں میں خواتین کی نمائندگی کا فقدان ہے بالخصوص اُن سبھی شعبوں میں خواتین کم دکھائی دیتی ہیں جہاں ڈیجیٹل معیشت رائج ہے اُور جہاں اِس معیشت میں زیادہ معاوضے والی ملازمتیں پائی جاتی ہیں۔ یہ جزوی طور پر سماجی اور ثقافتی روایات کی وجہ سے ہے‘ جنہیں اصول کہا جاتا ہے ‘جو خواتین کو نئے ملازمتی مواقع اختیار کرنے کے قابل بناتے ہیں لیکن لمحہ¿ 
فکریہ ہے کہ خواتین سے اکثر کام کاج کی جگہوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت کی دنیا میں بھی ایسا ہی ہے کہ صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لئے‘ ڈیجیٹل صنفی فرق اور خواتین کےلئے ڈیجیٹل شمولیت کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے۔ حکومت‘ سول سوسائٹی اور نجی شعبہ خواتین کےلئے ڈیجیٹل شمولیت کو فروغ دینے کےلئے مشترکہ اور انفرادی حیثیت میں اقدامات کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومتی ادارے اور غیرحکومتی تنظیمیں سبسڈی یا کم قیمت ڈیجیٹل آلات فراہم کرکے ’ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز‘ جیسا کہ سمارٹ فونز اور کمپیوٹرز تک رسائی بہتر بنا سکتی ہے اور اِس میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔ مزید برآں دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرنے کے لئے اقدامات بھی ممکن ہیں۔ ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجیوں سے مو¿ثر استفادے اور ضروری مہارتوں کو فروغ دینے میں مدد دے سکتی ہیں‘ تنظیمیں خواتین کو کمپیوٹر خواندگی‘ کوڈنگ اور دیگر ڈیجیٹل مہارتوں کی بنیادی باتیں سکھانے کےلئے تربیتی پروگرام‘ ورکشاپس اور آن لائن وسائل فراہم کر سکتی ہیں‘ ثقافتی رکاوٹیں جو خواتین کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تک رسائی سے روکتی ہیں انہیں بھی دور کیا جانا چاہئے۔

Leave a Reply