Donald trump aur americi nizam insaf

 ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی نظام انصاف




 قانون کے آہنی ہاتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ لوگ اب سوچ رہے ہیں کہ ایک سابقہ صدر جو دوسری بار بھی صدارتی انتخاب جیت سکتا ہے ‘ ایک سزا یافتہ مجرم بن کر جیل بھی جا سکتا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ پر پہلی فرد جرم نیو یارک سٹیٹ کے ڈسٹرکٹ اٹارنی Alvin Bragg نے لگائی تھی ‘ اس مقدمے میں سابقہ صدر پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے 2016 ءکی انتخابی مہم کے دوران ایک فلم سٹار Stormy Daniels کو ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر دے کر اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ ان واقعات سے پردہ نہیں اٹھائے گی جو ان دونوں کے تعلقات کے بارے میں تھے؛ اس مقدمے کو عرف عام میںHush Money case کہا جاتا ہے یعنی پیسے دے کر خاموش کرا دینے کا مقدمہ۔ماہرین کے مطابق یہ ایک کمزور مقدمہ ہے جسے ڈسٹرکٹ اٹارنی کے لئے جیتنا آسان نہ ہو گا جبکہ جمعے کے دن میامی کے ڈسٹرکٹ فیڈرل کورٹ میں دائر کیا گیا مقدمہ اس لئے مضبوط ہے کہ اس میں جسٹس ڈیپارٹمنٹ کے مقرر کردہ سپیشل کونسل Jack Smithنے ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر فرد جرم عائد کی ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس سے یہ خبر زیر بحث ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاﺅس سے جاتے وقت اپنے ساتھ اہم اور خفیہ دستاویزات کے درجنوں ڈبے لے گئے تھے۔خفیہ ایجنسی نے جب ان کی واپسی کاتقاضہ کیا تو سابقہ صدر نے پہلے یہ کہا کہ ان کے پاس ایسے کاغذات نہیں ہیں‘ پھر جب National Archive And Record Administration کی طرف سے خطوط بھیجے گئے تو سابقہ صدر نے چند ڈبے واپس کر دیئے ۔ اس کے بعد ایف بی آئی نے عدالت سے وارنٹ لے کر ان کے گھرسے دو درجن ڈبے برآمد کر لئے۔بظاہر تو یہ شواہد‘ اور ٹرمپ کے ملازمین کے ان کے خلاف بیانات استغاثہ کا کیس ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں مگر ان تمام تفصیلات کوطویل عدالتی مراحل سے گذرنا پڑے گا۔ جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی یہی کوشش ہو گی کہ اگلے سال جون تک ٹرمپ کے خلاف فیصلہ حاصل کر لیا جائے۔اس کے بعد دو تین ماہ میں اپیل کے مراحل بھی طے کر لئے جائیں اور پھر نومبر میں صدارتی انتخاب سے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل بھیج دیا جائے۔امریکی قانون کے مطابق صدارتی امیدوار جیل میں ہوتے ہوئے بھی انتخابی مہم چلا سکتا ہے۔ ایک مشہور انقلابی لیڈر Eugene Debs نے 1920ءمیں جیل میں ہوتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل سے بچانے کے لئے ان کے وکلاءیہ کوشش کریں گے کہ مقدمے کو زیادہ سے زیادہ طول دیا جائے تا کہ یہ کاروائی نومبر 2024ءتک جاری رہے۔ اس کے بعد ان کا موکل اگرالیکشن جیت جاتا ہے تو پھر وہ اس مقدمے کو بہ یک جنبش قلم ختم کر دے گا۔اس 
وقت تک امریکی عوام جس ہیجان سے گذریں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔آج تک تو امریکی دوسرے ممالک میں صدور اور وزرائے اعظموں کو جیل جاتے اور پھانسی چڑھتے دیکھتے رہے ہیں مگر اب وہ پہلی مرتبہ اپنے سابقہ صدر کو کٹہرے میں دیکھیں گے۔ اس مقدمے کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکہ کا نظام انصاف بھی کٹہرے میں کھڑا ہو گا۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہو گی جس کا تجربہ اس ملک کے عوام نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ یہ ایک ایسا دوراہا ہے جہاں یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریت میں قانون کی بالادستی قائم ہے ‘ یہاں طاقتور ترین شخص کو بھی جوابدہ ہونا پڑتا ہے اور یہ ایک ایسا لمحہ بھی ہو سکتا ہے جب لوگوں کی اکثریت یہ مان لے گی کہ ان کے ملک میں ریاستی اداروں کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ری 
پبلکن پارٹی کی ایک بڑی اکثریت نے ابھی سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ صدر بائیڈن نے اپنے مضبوط ترین مد مقابل کو راستے سے ہٹانے کے لئے نظام انصاف کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خبر کے ملتے ہی ٹویٹر پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے جلی حروف میں یہ لکھ دیا تھاGREATEST WITCH HUNT OF ALL TIME یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ پاپولسٹ سیاست کی حرکیات روایتی سیاست سے نہایت مختلف ہوتی ہیں۔ مارچ کے مہینے میں جب ری پبلکن پارٹی کے ووٹروں کی رائے معلوم کی گئی تو چندOpinion Polls کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف چوالیس فیصد کے قریب تھا اور ان کے بعد دوسرے نمبر پر فلوریڈا کے گورنر Ron DeSantis تھے جنہیں بتیس فیصد ری پبلکن ووٹروں کی حمایت حاصل تھی۔ اس کے بعد جب مئی کے آخر میں لوگوں کی رائے معلوم کی گئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت باون فیصد ہو چکی تھی اور ان کے مد مقابل کی حمایت تیس فیصد تھی ۔ ان دو ماہ میں آخر ایسا کیا ہوا کہ ٹرمپ کی حمایت میںآٹھ فیصد اضافہ ہوگیا؟ مارچ میں مین ہیٹن کے ڈسٹرکٹ اٹارنی Alvin Bragg نے سابقہ صدر پر فرد جرم عائد کی تھی۔اب اس دوسری فرد جرم کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے بڑے لیڈرجن میں سپیکر آف دی ہاﺅس Kevin McCarthy اور آٹھ صدارتی امیدوار بھی شامل ہیں نے ابھی سے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں تندو تیز بیانات دینے شروع کر دیئے ہیں۔ نظر یہ آ رہا ہے کہ اس ملک کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ قانون کی بالادستی کو ثابت کر نے کے لئےڈونلڈ ٹرمپ کو ایک سزا یافتہ مجرم کے طور پر جیل جاتے ہوے دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں ان کے مخالفین اپنے ہیرو کو دوبارہ صدر امریکہ بنانا چاہتے ہیں۔ جیت جس کسی کی بھی ہو امریکہ ایک نئے ہیجان خیز دور میں داخل ہو گیا ہے۔اب امریکی جمہوریت‘ نظام انصاف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مستقبل کا فیصلہ اگلے سال نومبر ہی میں ہو گا۔ 

Leave a Reply