Gaon chmkein gay

گاؤں چمکیں گے




دیہات اور شہر وں کے رہن سہن میں فرق بہت زیادہ ہوتا ہے۔جو سہولیات شہروں میں دستیاب ہوتی ہیں، دیہات میں یہ نہیں ہوتیں۔

بعض دیہات میں تو زندگی کی بنیادی ضروریات بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ حالانکہ دیہی زندگی شہری زندگی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے جو ضروریات شہروں میں رہنے والوں کی ہوتی ہیں وہی ضروریات دیہات میں بسنے والوں کی بھی ہیں۔

کسی گاؤں میں اگر بنیادی صحت کا مرکز موجود ہے تو وہاں پر ڈاکٹر موجود نہیں ہے کیونکہ ڈاکٹر حضرات شہر کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر ڈاکٹر کا تبادلہ کسی گاؤں میں ہو بھی ہو جائے تو وہ واپس شہر جانے کے لیے تبادلے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے ۔

دیہات میں خاص طور پر جس معالج کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہ زچہ بچہ کا ہے، دیہی خواتین کے پاس شہری خواتین جیسی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں، زچگی کے لیے کسی دور قصبے یا شہر کا سفر کرنا، سڑکوں کی ناگفتہ بہ حالت کی وجہ سے نہ صرف انتہائی تکلیف دہ اور دشوار ہوتا ہے۔

دیہات میں صفائی کا انتظام نہیں ہوتا، اپنی مدد آپ کے تحت گاؤں کے لوگ کرتے ہیں ۔صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی ہے، شہر وں میں صاف پانی اسکیم کے تحت حکومت نے فلٹریشن پلانٹ لگا دیے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اعلانات کے باوجود ابھی تک دیہات میں یہ سہولت فراہم نہیں کی جا سکی۔

پاکستان کی حکومتیں دیہات کو نظر انداز کرتی آئی ہیں ،کبھی کبھار کسی حکمران کو خیال آ بھی گیا تو اس نے ’’ماڈل ولیج‘‘ بنانے کی بات کی لیکن ان ماڈل ولیجز پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا اور دیہات کے رہنے والے زندگی کی بنیادی ضروریات کو بھی ترستے رہ گئے۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیہاتی زندگی گزارتا ہے جن کا سب سے بڑا پیشہ کاشتکاری ہے جس سے ان کی روزی روزگار کا معاملہ چلتا ہے۔ کاشتکاری کے علاوہ د یہات میں کوئی ایسا قابل ذکرذریعہ روزگار نہیں ہوتا جس سے دیہاتیوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہو سکیں اور وہ نسبتاً ایک آسودہ اور خوشحال زندگی گزار سکیںلیکن ڈیزل، کھاد ، بیجوں اور زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے کاشتکاروں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔

زرعی پیداوارکے ان بنیادی اجزاء کی قیمتوں پر حکومت کی جانب سے موثر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکارپریشان ہیں جس سے زرعی پیداوار کے مقررہ اہداف بھی حاصل نہیں ہو پارہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے بجٹ میں ملک بھر میں پچاس ہزارسولر ٹیوب ویلز کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

جب تک حکومت آب پاشی کے لیے تمام ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل نہیں کرتی، اس وقت تک زرعی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کی جائے اور کسانوں کے لیے ڈیزل کا کوٹہ مختص کیا جائے تا کہ انھیں ریلیف ملے۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ اور ہمارے دوست محسن نقوی نے دیہات کی ترقی پر فوکس کیا ہے۔ نگران حکومت چونکہ ایک مخصوص مقررہ مدت کے لیے اقتدار میں آتی ہے لیکن وزیر اعلیٰ اس مختصر مدت میں جس طرح ہنگامی بنیادوں پر عوامی فلاح کے کام کر رہے ہیں۔

مجھے خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ سیاست کے میدان کار زار میں ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے نہ آجائیں۔ بہر حال ہم دیہاتی لوگ اپنے نگران وزیر اعلیٰ کے مشکور ہیں جو ہم دیہاتیوں کی آواز بن کر سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے دیہات کی حالت سدھارنے کے لیے گاؤں کی سطح پر صاحب بہادر اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں مقامی معززین پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔

گاؤں میں چوکیداری نظام متعارف کرانے، شہر کی طرز پرگاؤں میں سینٹری ورکرز کی تعیناتی کر کے صفائی کا پائیدار نظام وضع کرنے اور صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست کرنے کے علاوہ گاؤں سے وصول ہونے والا ریونیو گاؤں کی بہتری پر ہی خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔

وزیر اعلیٰ صاحب سے گزارش کرنی ہے گاؤں میں کوئی ایسی صنعتیں نہیں ہوتیں جن سے ٹیکس کی مد میں کسی قسم کا کوئی ریونیو حاصل ہو سکے جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ گاؤں میں تو غریب کاشتکار ہی ہوتے ہیںجو پہلے ہی زرعی پیداوار کے حصول کے لیے ڈیزل، بجلی وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں، ایسے اگر اے سی صاحب کے ماتحت کمیٹیوں کوریونیو کے حصول کا ہدف بھی دے دیا گیا تو معاملات سدھرنے کے بجائے بگڑنے کا خطرہ زیادہ ہو گا۔

دیہاتی اپنے وزیر اعلیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کاشتکاروں کے لیے سولر ٹیوب ویل کی تنصیب کی مد میں حکومت پنجاب کی جانب سے بھی امدادی پیکیج کا اعلان کریں۔ زرعی استعمال کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی ، کھادوں کی ارزاں نرخوں پر فراہمی اور کاشتکاروں کے لیے ڈیزل کی ماہانہ بنیاد پر سبسڈی کا نظام وضع کرنے کے اقدامات کو ترجیح دیں۔

خاص طور دیہات کے بنیادی طبی مرکز میں ڈاکٹروں کی تعیناتی کو یقینی بنائیں۔ کاشتکار اﷲ پر توکل رکھنے والے ہوتے ہیں، ان کی دعائیں لیںاور گاؤں چمکانے کے اپنے خواب کو حقیقی معنوں میں مکمل کریں۔

Leave a Reply