Gebat aur ilzam trashian

غیبت اور الزام تراشیاں




معاشروں کا عروج وزوال اچھے یا برے کئی قسم کے فیصلوں پر منحصر ہوتاہے ۔قرآن پاک کے مطابق پست ترین قومیں آخر کاراللہ کے عذاب کا شکار ہوجاتی ہیں۔ جدید دور کی چکاچوند ، علمی ، سائنسی اور تیکنکی فکر اِس بات کو نہیں مانتی۔ انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت ہے ’’چھوٹے آدمی لوگوں کے بارے میںباتیں کرتے ہیں ، بڑے آدمی خیالات اور نظریات زیر بحث لاتے ہیں اور عظیم لوگ خاموشی سے عمل پیرا رہتے ہیں‘‘ جب کسی قوم اور معاشرے میںسیاست ،عدالت ،صحافت ، طب اور صحت، سیاحت وثقافت اور شعروشاعری اور ادب وہنر سمیت فضائوں سے لے کر بحروبر تک لوگ صرف لوگوں کو ہی موضوع گفتگو بنائیںتو ایسی قوم اور معاشرے کو خود کش بمبار وںکی کوئی ضرورت نہیںرہتی۔ ایسی صورت میں سب سے بڑا معاشرتی مشغلہ ایک دوسرے کی غیبت کرنا اور الزام لگانا ہی رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے جو مزہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے میں ہے وہ بکرے کے گوشت میں کہاں؟ تبھی تو علی ؑ فرماتے ہیں ’’اگر تم لوگوںکو ایک دوسرے کے بارے میںایک دوسرے کے خیالات کا علم ہوجائے تو تم ایک دوسرے کو دفنانا بھی پسند نا کرو‘‘ ۔ ہماری گفتگو کا تو آغاز ہی دوسروں کے بارے میںباتیں کرنے سے ہوتاہے۔ یعنی غیبت کرنے سے، باپ بیٹے کی غیبت کرتا ہے اور بیٹا باپ کی، ساس بہو کی غیبت کرتی ہے اور بہوساس کی، بھائی بہن کی غیبت کرتاہے اور بہن بھائی کی، شوہر بیوی کی، افسر ماتحت کی، شاگرد استاد کی، ڈاکٹر مریض کی، منصف وکیل کی اور ٹی وی اینکر کو تو پیسے ہی اس بات کے ملتے ہیں کہ وہ غیبت کرنے اور کرانے میںکتنا ماہر او ر مشاق ہے۔ اخبار کے کالم کا بہترین موضوع غیبت یا الزام تراشی ہوتاہے۔ یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ گلی محلے ،دکان ،بازار حتیٰ کے مسجد کے اندر بھی سننے کو یا غیبت ملتی ہے یا الزام ترازشیاں ۔ ایسے میں ترقی اور خوشحالی کا خیال ایک سہانا خواب ہی رہ جاتاہے۔ ہم لوگوں کی مثال اُس کالی بلّی کی مانند ہے جو گہری رات کے وقت ایک اندھیرے کمرے میںکسی سیاہ چوہے کے پیچھے دوڑ رہی ہے جو ہاتھ نہیںآرہا۔ ایسی صورت میںٹکریں مار مارکر سوائے لہو لہان ہونے کے بلی کا کوئی مقدر نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ وہ روشنی کی بجائے چوہاڈھونڈ رہی ہے۔ اب آدمی کس امید پر جئے ؟ جو بغیر سعی وکوشش کے امید یںلگائے رکھے وہ بیوقوف کہلاتا ہے۔ امید ایک خواب کا نام ہے جس کی تعبیر کیلئے جدوجہد ضروری ہوتی ہے۔ تبھی تو علی مرتضیٰؑ فرماتے ہیں ’’بدترین ہے وہ جو شخص جوبخشش کی امید پر گناہ کرتاہے اور زندگی کی امید پر توبہ کو ٹالتا ہے‘‘ وہ زندگی جس کاکوئی بھروسہ نہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میرے دوست اور ساتھی رمضان بھٹی کا جواں سال پوتا عبدالمنان ایک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگیا۔ کسی کا کچھ نہیں بگڑتا چاہے کوئی جئے یا مرے لیکن ہم جیسے بدبخت لوگ ’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں‘‘ کے مصداق اپنے حال میں مست رہتے ہیں ۔ایسے میںہمیں یہ گلہ کرتے ہوئے بھی شرم نہیںآتی۔ رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر سنگاپور کے عظیم رہنما آنجہانی لی کوان یو نے خود بتایا تھا کہ ’’جب سنگاپور آزاد ہواتوہم نے فیصلہ کرناتھا کہ آیا ہم نے امیر ہونا ہے یا سنگا پور نے۔ سب نے اس فیصلے پر اتفاق کیا کہ سنگا پور نے امیر ہونا ہے‘‘ اس فیصلے کے نتیجے میں لالو کھیت جتنے ملک سنگا پور کا شمار آج دنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتاہے ۔ ہم نے فیصلہ چونکہ اس کے برعکس کیا تھا اس لئے پاکستان کمر میں ایٹم بم لٹکائے ننگا تڑنگا اورا سکے حکمران دنیا کے امیر ترین لوگ بن گئے ہیں ۔ زندگی میںفیصلوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ چاہے فرد کی سطح پر ہوں یا قومی سطح پر۔ آدمی کی واضح مرضی اور اختیار ہی اُسے دین میں داخل ہونے کے بعد جوابدہ بناتا ہے ۔مسلمان کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ۔ آدھا تیترآدھا بٹیر والی شرارت یہا ں نہیں چل سکتی۔ ’’رات کو پی لی شراب ، صبح کو پڑھ لی نماز۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ والا فارمولہ یہاں نہیں چلتا۔ زندگی بھر سود کھا کھاکر ، طرح طرح سے لوگوں کا حق مار مار کر ، لوٹ کھسوٹ ، دھونس ،دھاندلی اور رشوتوں والی رقموں سے مسجدوں کی تعمیر ، یتیم خانوں کو چندے ، مریضو ںکا مفت علاج ، سَو سَو غریب ونادار لڑکیوں کی دھوم دھام سے اجتماعی شادیاں کرانے کا اتنا ہی ثواب ہوگا جتنا جان بوجھ کر بغیر وضو کے نماز پڑھنے کا ہوسکتاہے۔کیوں؟ اس لئے کہ اللہ کو دھوکہ نہیںدیا جاسکتا کیونکہ وہ آدمی کے اندر سے بھی اتنا ہی واقف ہے جتنا باہر سے ۔ تبھی تو امام زین العابدین ؑ اپنی ایک دعا میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں ’’ اے معبود ،میں تیر ی پناہ چاہتا ہوں۔ سیر نہ ہونے والے نفس سے، خوف نہ رکھنے والے دل سے، نفع نہ دینے والے علم سے، قبول نہ ہونے والی نماز اور نہ سنی جانے والی دعا سے‘‘ اس دعا کے الفاظ پر ذرا غور وفکر ایک مسلمان کو اپنے اعمال کی صحیح سمجھ عطا کردیتاہے۔ فرمایا گیا کہ ’’دولت عزت اور شہرت آدمی کو بدلتی نہیں ،اُسے بے نقاب کردیتی ہے‘‘ آدمی اپنی دولت کوطاقت اور ہمیشگی کا سر چشمہ سمجھتے ہوئے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور بدترین اوچھے ہتھکنڈوں یعنی غیبت ، طعنہ زنی ، الزام تراشیوں اور چغلیاں کھانے پر اترآتاہے ۔ اس کیفیت میں اپنے اور پرائے سمیت کوئی بھی شخص اس کی زد سے محفوظ نہیں رہتا اپنے اردگر ڈھیر سارے لوگوں کی زندگی اجیرن کرسکتا ہے تو پورے کا پورا معاشرہ اگر غیبتوں ، طعنہ زنیوں ، الزام تراشیوں اور چغل خوریوں پر اتر آئے تواس کاکیا بنے گا؟ اللہ عیب ڈھانپنے والا ہے اور مسلمان ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ سورہ الھمزۃ میں فرماتاہے ’’ تباہی اور بربادی ہے غیبت کرنے والے، طعنہ زن اور چغل خور یعنی الزام لگانے والے کے لئے جس نے مال کو جمع کیا اور خوب اس کا حساب رکھا ۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مال اسے ہمیشہ باقی رکھے گا ۔ہر گز نہیں۔ اُسے یقینا حطمہ میںڈال دیا جائے گا۔ اور تم کیا جانو کہ حطمہ کیا شئے ہے؟ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے،جو دلوں تک چڑھ جائے گی۔ وہ آگ اُن کے اوپر گھیر دی جائے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کے ساتھ‘‘ ذراسوچیں ہمارا کیا بنے گا؟ ہم نے تو پچھہتر سالوں میںکام ہی یہی سیکھا ہے ۔پھر کیا کریں؟ کیوں نا اللہ سے من حیث القوم معافی مانگ لیں جو اپنے بندوں سے جلد راضی ہوجاتا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی بجائے اُ س کی باتوں پر عمل کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں کی رسوائیوں سے بچ جائیں۔

Leave a Reply