Hamara budget , na tumhara budget

ہمارا بجٹ، نہ تمہارا بجٹ




تھا انتظار جس کا وہ شاہکار آ گیا۔ آپ میرے اس جملے پرمتجسس نہ ہوں کیونکہ میںنے جس ’’شاہکار‘‘ کا ذکر کیا ہے ‘وہ آپ کا دیکھا بھالا بلکہ بھگتایا ہوا ہے،آپ اسے اب بھی بھگت رہے ہیں اور آیندہ بھی بھگتنے کا پکا ارادہ رکھتے ہیں۔

چلیں بات کو تجسس سے نکالتے ہیں‘ میرا یہ ’’شہکار‘‘ بجٹ کے مشہور ومعروف نام سے جانا اور پہنچانا جاتا ہے۔ موصوف ہرسال جون کے ابتدائی دنوں میں یوں وارد ہوتا ہے جیسے مالک مکان کرایہ لینے آتا ہے۔

ظاہر ہے ہم تو ٹھہرے کرایہ دار لہٰذا کرایہ دینے سے انکار تو کر نہیں سکتے‘ البتہ کرایہ نہ بڑھانے کے لیے مالک مکان سے التجا کر سکتے ہیں لیکن تجربہ یہی ہے کہ مالک مکان منتوں ترلوںکو ایک کان سے سنتا ہے اور دوسرے سے نکال دیتا ہے۔

بجٹ پیش کرنے والوں کی عادت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ کہنے کو تو بجٹ سالانہ بنیادوں پر پیش کیا جاتا ہے لیکن عملاً بار بار پیش کیا جاتا ہے ، بس نام بجٹ کے بجائے نیپرا، اوگراور منی بجٹ کا ماسک پہنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

میں اور آپ بے بسی کی تصویر بنے اپنی جیب کٹتے ہوئے دیکھتے ہیںلیکن کر کچھ نہیں سکتے۔کیونکہ گیس سے چولہا بھی جلانا ہے اور رات کو روشنی کے لیے بلب بھی جلاناہے اور پنکھا چلانا ہے۔ گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے کے پٹرول بھی چاہیے۔ کسی دل جلے نے بجٹ کے بارے میں کچھ یوں ارشاد کیا ہے۔

ہمارا بجٹ، نہ تمہارا بجٹ

ہے سارے کا سارا خسارہ بجٹ

کوکنگ آئل نہ پٹرول نہ سیل فون

ہے انٹرنیٹ کو بھی لتاڑا بجٹ

درآمد کو سمجھیں نہ برآمد کو ہم

بس ہوا ہے گھروں کا کباڑا بجٹ

گیس ہوئی مہنگی، بجلی نے مارا جھٹکا

غریب پر قہر بن کے ٹوٹا کلہاڑا بجٹ

ہے غریبوں کو پھر بھی بڑی آس

بنے گا کبھی تو ہمارا بجٹ

غریب اورمڈل کلاس کے پاس آس و امید کے سوا جینے کا بہانہ ہی کیا ہے حالانکہ آس و امید کا ’’موجود‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یوں سمجھیں، ایک رومان پرور خیال کومیںآج کی حقیقت کا روپ دے کر کل کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کرنے کا نام آس اور امید ہے۔

ویسے غریب اور مڈل کلاس کے پاس’’آیندہ کل‘‘ کا بے حقیقت سہارا بھی نہ ہو تو وہ خود کشی کریں گے یا پھر انقلابی بن کر سب کچھ خاک میں ملا د یں گے۔ اقبال نے اس سچی کیفیت کو شعر کا روپ دیا ہے۔

جس کھیت سے میسر نہ ہو دہقان کو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

لیکن اپنے ’’دیس واسی ‘‘ذرا وکھرے ٹائپ کے لوگ ہیں، وہ اقبال کے شعر میں عیاں پیغام انقلاب کو شاعری سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مزے کی بات یہ ہے، الٹرا ماڈرن ایلیٹ کے نونہالان صوفیانہ انداز میں ’’جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی‘‘ کا درس دیتے ہیں اور خود کو اقبال کا وہ ’’شاہین‘‘ سمجھتے ہیں جو خون گرم رکھنے کے لیے ’’ شکار‘‘ پر براہ راست جھپٹتا ہے بلکہ پلٹ کر بھی جھپٹتا ہے۔

پاکستان ایسے بلند پایہ قلم کاروں،خطیبوں، صداکاروں اورمجاہد قسم کے ٹی وی اینکرز سے بھرا پڑا ہے، جواپنی اپنی ’’خودی‘‘ کو اتنا زیادہ بلند کرلیتے ہیں کہ انھیں پڑھنے‘سننے اور دیکھنے والا گھبرا کر خود پوچھتا ہے کہ’’ بتا تیرا خرچہ کتنا‘‘ ہے۔

ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی بڑے نٹ کھٹ اسٹائل کے’’ انقلابی‘‘ ہیں۔ کبھی ترنگ میں آئیں تو مرحوم حبیب جالب کی روح کو تڑپانے کے لیے ’’ میں نہیں مانتا ظلم کے ضابطے‘‘ لہک لہک کر گنگناتے ہیں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کا حکمران اور خوشحال طبقہ کے لیے انقلاب ایک رومانوی تصور ہے جب کہ ہماری مڈل کلاس بھی رد انقلاب کوپرولتاری انقلاب سمجھتی ہے لیکن اپنے عمل و کردار میں ’’بھاگ لگے رہین، دوارے وسدے رہین‘‘کہتے ہوئے طاقتور کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ جیسی رعایا، ویسا حاکم والی ضرب المثل شاید ہمارے کریکٹر کی وضاحت کے لیے ہی بنی ہے۔

بات بجٹ کی ہورہی ہے لیکن کہیں اور نکل گئی‘واپس موضوع پر آتا ہوں۔ مجھے یاد ہے اور یقیناً آپ کو بھی یاد ہوگا، کبھی بجٹ واقعی بجٹ ہوا کرتا تھا، ریاست اور حکومت خود بھی ہاتھ پاؤں ہلاتی تھی، اپنے شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔

پٹرول، مٹی کا تیل،گھی، ادویات کی قیمتیں اور ٹرانسپورٹ کے کرائے وغیرہ وفاقی اور صوبائی بجٹ میں مقرر کردیے جاتے تھے اور ان میں ردوبدل اگلے سال کے بجٹ میں ہی ہوا کرتا تھا۔ منی بجٹ کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ اوگرا اور نیپرا وغیرہ کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔ صحت اور تعلیم کے شعبے ابھی کاروبار نہیں بنے تھے ۔ پرائمری، سکینڈری اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز ، اسپتال اور ڈسپنسریاں تک سرکار کے کنٹرول میںتھیں۔ معیشت کی روانی اور استحکام کی بنیادی وجہ یہی تھی۔

آج کل بجٹ آمدنی اور خرچ کے اعداد وشمار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بجٹ میں صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ عوام نے ٹیکسوں کی مد میں ریاست کو اتنے کھرب روپے ادا کرنے ہیں، عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کو اتنا قرض بمعہ سود ادا کرنا ہے اور ریاست کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے یعنی تنخواہوں ، سہولتوں اور مراعات کے لیے اتنے ارب روپے درکار ہیں، بس۔ پٹرول کے نرخ بجٹ سے باہر طے ہوتے ہیں۔

نجی اسکولوں، کالجزاور یونیورسٹیز کی فیسیںمالکان خود طے کرتے ہیں‘ ریاست و حکومت کا کوئی ان سے کوئی سروکار نہیں ہے، نجی اسپتالوں اور نجی لیبارٹری کے ٹیسٹوں کے نرخ ان کے مالکان طے کرتے ہیں؟ سالانہ سرکاری بجٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا ہے، یہ مالکان کی مرضی ہے کتنی فیس لینی ہے۔

بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین بھی بجٹ میں نہیں ہوتا‘ یہ ہر ماہ یا پندرہ روز کے بعد اوگرا اور نیپرا طے کرتے ہیں ۔ادویات کی قیمتیں، کوکنگ آئل ، گھی، کنسٹرکشن میٹریلز کی قمیتں کون طے کرتا ہے ؟ بجٹ خاموش ہے۔ ریاست اپنے فرائض سے ریٹائرمنٹ لے کرمیٹھی نیندسو رہی ہے‘کھانا پینا مفت ہے اور ذمے داری کوئی نہیں۔

کسی ستم ظریف نے حالیہ بجٹ میں تعلیم ، صحت اور خوراک و روزگار کے حوالے سے کیا خوب طنز کیا ہے۔وفاقی بجٹ میں عوام کی صحت کے لیے ’’اﷲ ہوالشافی، تعلیم کے لیے ’’رب زدنی علما اور روزگار کے لیے وللہ خیر الرزقین‘‘ کے وظیفے مقرر کیے ہیں۔

کہاں تک سنو گے ، کہاں تک سناؤں۔ جیب خالی ہو تو سفید رنگ بھی سیاہ نظر آتا ہے۔ ریاست اور حکومت عوام سے سب کچھ لینے کے باوجود مزید قربانی کا تقاضا کرتے ہوئے ذرا برابر شرمندہ نہیں ہوتی بلکہ دھمکی دیتی ہے کہ ٹیکس نہ دیا توحشر کر دیں گے ۔ ساغر صدیقی کے اس خوبصورت شعر پر رخصت چاہتا ہوں۔

ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی، عہد وفا یاد نہیں

Leave a Reply