Hum say na qadar shnas!!

!!ہم سے ناقدر شناس




یا اللہ!…… یا رب العالمین!…… یا رب الارباب!…… یا مالک المک!…… یا قادر و قیوم!…… یا حیّ لایموت!! تُو نے اپنے قرآن میں کہا…… اور سچ کہا، تُو سچ ہی کہتا ہے…… یقیناً تیری اس بات کے مخاطب ہم ہی ہیں …… ”ان لوگوں نے قدر نہیں کی اللہ کی، جس طرح کہ قدر کرنے کا حق تھا“ بلاشبہ یہ ہمارے ہی بارے میں آیت ہے، اس کا مخاطب ہمارا ہی دَور ہے…… آج ہم اپنی زندگیوں کی طرف دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ہم ہی وہ ناقدر شناس لوگ ہیں جو تیری قدر نہیں کر سکے۔ بالیقین نعمت کی ناقدری اپنے منعم ہی کی ناقدری ہے۔ تُو نے ہمیں بے شمار نعمتیں دیں، اتنی زیادہ کہ اگر گنتی کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں۔ قرآن میں تیرے ہی فرمان کا یہ بندہ اعتراف کر رہا ہے۔
تُو نے ہمیں ملک دیا، آزادی کی نعمت دی…… دو طرفہ دشمنوں سے بچایا…… لیکن ہم خود ہی اپنے دشمن بن گئے…… ہم تیرے عطا کیے ہوئے ملک کی قدر نہ کر سکے۔ ہم اس میں آباد لوگوں کی قدر نہ کر سکے۔ حاکم لوگ اس ملک سے چلے گئے تو ہم ان کی جگہ حاکم بن گئے…… ہم اپنے لوگوں کے خادم نہ بن سکے۔ یک جان دو قالب کہنے والوں نے ملک کو دو لخت کر دیا…… اور ہمیں اس کا ملال تک نہ ہوا۔ ہم نے سوچا اچھا ہوا، بھوک ننگ والے بنگالیوں سے جان چھوٹی، ہر سال سیلاب آتا تھا اور ہم اہلِ مغرب کی زرخیزی بھی ساتھ لے جاتا…… وہ ہمارا کہنا بھی تو نہیں مانتے تھے، ہمیں حاکم تسلیم نہیں کرتے تھے، ہماری حکم عدولی کرتے تھے، اپنی عزتِ نفس ہمارے سامنے حقیر نہیں جانتے تھے۔ ہمارے دیے ہوئے بیانیے پر نہیں چلتے تھے۔
ہم نے آزادی اس وعدے پر حاصل پر کی تھی کہ ہم یہاں اسلام پر من و عن عمل پیرا ہوں، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی…… ہم نے دیکھا اہلِ ہنود ہماری مخاصمت میں کھڑے ہیں۔ اپنی جان اور ایمان بچانے کے لیے ہمیں الگ وطن درکار تھا، سو تُو ہمیں ایک لیڈر عطا کیا، جس کی آواز پر سب نے لبیک کہا اور وطن آزاد ہو گیا۔ اس لیڈر کی ہم نے اس وقت بھی قدر نہیں کی تھی، جب وہ اپنے منحنی وجود میں تپدق کی بیماری کے ساتھ ہمارے لیے لڑ رہا تھا۔ ہم نے اس وقت بھی اسے کافر اعظم کے فتوے دیے۔ اس کے لباس اور بود وباش سے لے کر عقیدے تک سب کو تختہ مشق بنایا۔ اپنے محسن کے ساتھ بے مروتی ہم نے ملک حاصل ہوتے ہی شروع کر دی تھی۔ محسنوں کے ساتھ بے وفائی ہماری رگ رگ میں سمائی ہے، شاید یہ ہمارا قومی ورثہ ہے۔ محسن کشی کے اس ”لوگ ورثے“ کی نمائش ہم نے ہر دور میں کی ہے اور ابھی تک پورے زور و شور سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ہمارے اجتماعی اور انفرادی حال میں چنداں
فرق نہیں۔ ہمارے انفرادی رویے ہمارے اجتماعی رویوں سے مختلف ہرگز نہیں۔ ہم نے کم وسائل کی ایک ناتواں دنیا میں آنکھ کھولی اور تمنا ہوئی کہ ہمیں طاقت ملے، دولت ملے، نام اور مقام ملے تو ہم اپنی صلاحیتوں کو تیرے دین کے لیے وقف کر دیں گے۔ ہمیں بخوبی معلوم تھا کہ نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا، ہم قرآن پڑھتے رہے، لیکن سنانے کی حد تک۔ ہم عبادت کرتے رہے لیکن دکھانے کی حد تک۔
بارِ خدایا! ہم نے تیرے احسان کو استحقاق سمجھا اور تیری نعمتوں پر سجدہِ شکر کو تیرے قرب کا ذریعہ نہ بنا سکے۔ وہ اسباب و وسائل جو تیری عبادت اور تیرے بندوں کی خدمت میں صرف ہونے چاہیے تھے، انہیں ہم اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے رہے۔ درآن حالے کہ تو ہی مالک الملک ہے، ہمارے وجود سمیت ہر شے کا تو ہی مالک ہے۔ یہ خاکی وجود ایک کرایے کے گھر کی طرح ہمیں رہنے کے لے ملا تھا، اسے ہم اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے اس میں توڑ پھوڑ کرتے رہے۔ اب جب وقت اور وسائل اپنے آخری ایام میں ہیں، یہ خیال کھائے جا رہا ہے کہ مالکوں نے اپنی ملکیت واپس مانگ لی تو یہ تخریب زدہ وجود ہم کس منہ سے واپس لوٹائیں گے۔
اے مالک الملک! تو نے زندگی ایسی نعمت دی تھی، تاکہ اس نعمت کی قدر کی جائے، جنہوں نے اس نعمت کی قدر کی، وہ ہمیشہ کی زندگی میں داخل ہو گئے۔ تُو نے ہمیں زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ہمیں اس زندگی میں سنگی ساتھی دیے تھے، ہماری زندگی کو طفولیت سے بلوغت تک پہنچانے کے لیے ماں باپ، بھائی بہن اور رشتہ دار دیے۔ ماں باپ ہمیں اس دنیا میں لانے کا وسیلہ بنے…… ہم اپنے وسیلوں کی ناقدری کے مرتکب ہوئے۔ ہم وسیلوں کے بجائے وسائل پر انحصار کرتے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ وافر وسائل کے باوجود زندگی تنہائی کا شکار ہو گئی۔ زندگی میں معنویت ختم ہو کر رہ گئی۔ بس اب ہمارا جسم ضروریات پورا کرنے کے لیے وقت بطور ایندھن استعمال کرتا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنے بھائی بہنوں کی قدر نہ کی، ہم اپنی انا کے حصار میں رہے۔ ہم نے اپنی سنگتوں کی قدر نہ کی۔ ہماری دولت نے بس ہمارے غرور اور غراہٹ میں اضافہ کیا۔ یہ غرور اور غصہ ہمیں اپنے دوستوں سے دور کرتا چلا گیا۔ سنگت کے سنگ رہتے ہوئے ہم پر معرفت کے رموز آشکار ہونا تھے، ہم سنگت سے بے نیاز ہو گئے، ہم اپنے رہبروں سے بھی بے نیاز ہوتے جا رہے۔ ہماری تعلیم نے ہمارے علم میں اضافہ نہ کیا، علم میں اضافہ تو حلم سے ہوا کرتا ہے۔ ہم حلیم الطبع نہ رہ سکے!!! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے قول اور فعل میں فرق کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔
اے مالک! تُو ستار العیوب ہے، تُو نے ہمارے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ یہ پردہ دراصل مہلت کا پردہ تھا، ہم نے سمجھ لیا یہ مہلت شاید ہمیشہ رہے گی، یہ پردہ ہمیشہ رہے گا، حالانکہ یہ مہلت اصلاح احوال کے لیے تھی۔ یہ واپس آنے کے لیے دیا گیا وقت تھا، ہم نے اس وقت کو بھی وقفِ عصیاں کر دیا۔
اے وہ ذات جو علیم بذات الصدور ہے…… ہم نے سنا، ہم نے پڑھا اور ہم نے محسوس بھی کیا کہ جلوت تیری صفات کی جولان گاہ اور خلوت تری ذات کے عرفان کی جلوہ گاہ ہے۔…… لقائے ذات حجلہ خلوت ہی میں ممکن ہے، لیکن ہم کثرت میں مشغول رہے…… وحدت کی طرف راہ نہ پا سکے۔ تُو سبحان ہے…… تیری ذات پاک ہے…… ہم اپنی تنہائی پاک نہ رکھ سکے۔ یا رب! کیا اس کا مداوا ممکن ہے؟ توبہ سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں، کیا توبہ سے گزرا ہوا وقت بھی واپس آ سکتا ہے؟؟ کیا توبہ سے وہ ممکناتِ قرب بھی واپس آ سکتے ہیں جو غفلت کی نذر ہو چکے ہیں۔ کیا کھویا ہوا وقت اور بچھڑا ہوا ساتھی دوبارہ میسر آ سکتا ہے؟ اب اس اعترافِ حقیقت کے بعد کیا حقیقت کی طرف واپسی ممکن ہے؟
ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم تیری قدر نہیں کر سکے…… ہم تیرا حکم مانتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ ہم نے تیری قدر کی ہے…… ہم تیرے رسولؐ کی لائی ہوئی شریعت میں اپنے شب و روز ڈھالتے تو یہ دلیل ٹھہرتی کہ ہم نے تیری قدر کی۔ ہم نے تو ان بندوں کی بھی قدر نہ کی جنہوں نے تیری قدر کی…… تیرے انعام یافتہ بندے، تیرے قدر شناس بندے، جنہیں تو نے عباد الرحمان کہا ہے۔ اگر ہم ان بندوں کی رتی بھر بھی قدر کرتے تو خود بھی کسی انعام کے مستحق ٹھہرتے۔ مگر ہم ان کے نام کی محفلیں سجاتے رہے اور اپنی ذات کے لیے داد سمیٹتے رہے۔ مخلوق ان کا پتہ ڈھونڈتے ہوئے ہمارے قریب آئی اور ہم نے ان سے اپنے مفادات منسلک کر لیے…… ہم بزرگوں کے آستانوں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ ہم اپنے بزرگوں کی بتائی ہوئی بات پر چلنے کے بجائے ان کے مزار پر ٹھہر گئے اور وہاں آنے والوں کی عقیدت کا خراج دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے لگے۔ وہ درد کی دولت عام کرتے تھے، ہم نے دولت کو اپنا درد بنا لیا۔
اے بدیع السمٰوات والارض! تو خالق بھی ہے اور بدیع بھی!…… تو عدم سے وجود کو برآمد کرتا ہے…… تُو وقت اور وجود دونوں کا خالق ہے۔ تُو اسباب کے عالم میں اسباب کے بغیر آدمؑ و عیسیٰؑ کا پیدا کرنے والا ہے۔ استثنیات صرف مخلوق کے لیے عجوبہ ہیں، تیری ذات کے لیے کچھ عجب نہیں۔ تیری ذات کے لیے کیا عجب کہ تُو معافی مانگنے والوں کی معافی قبول کر لے، معصیت کو مغفرت میں بدل دے، سیئات کو حسنات میں تبدیل کر دے…… مشکل کو آسانی میں بدل دے…… ہمارے ملکِ وجود اور مملکتِ وجود کی تخریب کو تعمیر میں بدل دے…… تجھے تیرے ہونے کا واسطہ…… تجھے اس ذاتؐ کا واسطہ جسے تُو نے مجسّم رحمت بنا کر بھیجا…… جس ذآتِ والا صفاتؐ نے تیری بندگی کا حق ادا کر دیا…… وہ ذاتؐ جو تیری مراد ہے اور تُو اسؐ کی مراد!!

Leave a Reply