Ishtehkam Pakistan party

استحکام پاکستان پارٹی




استحکام پاکستان پارٹی کے عہدیداران کا اعلان شروع ہو گیا ہے۔ عبد العلیم خان کو صدر بنا دیا گیا ہے، چند اور اہم عہدیداران کا بھی اعلان ہو گیا ہے۔

جہانگیر ترین نے اعلان کیا ہے کہ باقی عہدیداران کا اعلان بھی جلد کر دیا جائے گا۔ میرے لیے یہ ایک سوال ہے کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ناراض ارکان جن کی قیادت راجہ ریاض بطور قائد حزب اختلاف کر رہے ہیں ،کیا وہ بھی استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ ہیں یا نہیں۔ اس بارے میں کوئی واضح اعلان بھی سامنے نہیں آیا۔ اگر تحریک انصاف کے منحرف رہنما استحکام پاکستان پارٹی میں اکٹھے ہو رہے ہیں تو راجہ ریاض اور ان کے ساتھی کیوں نہیں گئے‘یہ بھی ایک سوال ہے۔

اگر قومی اسمبلی کے موجودہ ممبران کا ایک گروپ استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے تو استحکام پاکستان پارٹی پہلے دن سے پارلیمان میں پہنچ جاتی۔

ملک میں ا گر نگران حکومت کے قیام میں استحکام پاکستان پارٹی کا ایک کردار سامنے آجاتا ، جہانگیر ترین اور علیم خان کا قومی سیاست میں ایک واضح کردار سامنے آجاتا، اس لیے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ راجہ ریاض اور ان کے ساتھی ممبران قومی اسمبلی کو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ویسے بھی جہانگیر ترین اور راجہ ریاض کا قریبی تعلق کوئی راز کی بات نہیں، اس لیے ابھی تک ان کا شامل نہ ہونا نا قابل فہم ہے۔

اسی طرح جو سنیٹرز تحریک ا نصاف سے علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں،وہ بھی استحکام پاکستان پارٹی میں تاحال شامل نہیں ہوئے۔یہ بات بھی نا قابل فہم ہے کہ یہ لوگ اپنا وزن استحکام پاکستان پارٹی میں کیوں نہیں ڈال رہے ہیں؟ اگر سنیٹرز کا ایک گروپ استحکام پاکستان پارٹی کی حمایت کا اعلان کر دے تو پھر استحکام پاکستان پارٹی سینیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔

یہ سوال اہم ہے، موجودہ سنیٹرز اور ارکان قومی اسمبلی کی ترجیح استحکام پاکستان پارٹی کیوں نہیں ہے؟ اگر پہلے دن دس پندرہ ارکان قومی اسمبلی اور سنیٹرز جہانگیر ترین کے ساتھ کھڑے ہوتے تو لانچنگ کو چار چاند لگ جاتے۔

استحکام پاکستان پارٹی ملکی تاریخ کی پہلی جماعت بن جاتی جو بنتے ہی پارلیمنٹ کے دو نوں ایوان قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود ہوتی‘ یوں ماحول ہی بدل جاتا۔ جتنی محنت باقی لوگوں کو اکٹھا کرنے میں کی گئی ہے اتنی ان ارکان کو بھی ساتھ ملانے میں کی جانی چاہیے تھی۔اگر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بھی نئی پارٹی کی لانچنگ میں موجود ہوتے تو منظر نامہ بدل جاتا۔

سندھ اسمبلی کے بھی متعدد ارکان تحریک انصا ف سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں۔ انھوں نے بھی استحکا م پاکستان پارٹی کی حمایت کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ کل بھی ایک رکن سندھ اسمبلی نے تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس نے بھی استحکام پاکستان پارٹی کی حمایت کا اعلان نہیں کیا ہے۔ کیوں؟ کیا ان سب سے رابطہ ہی نہیں کیا گیا۔

یا انھوں نے استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہونا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ کیا بات ہے کہ عمران اسماعیل اورعلی زیدی سندھ سے دو تین ارکان سندھ اسمبلی بھی ساتھ لے کر نہیں آسکے ۔ کیوں؟ کیا یہ دونوں اتنے غیرمقبول تھے کہ ایک بھی رکن ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

دوستوں کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین لندن میں نواز شریف سے ملیں گے۔جہاں تک مجھے  سیاست کی سمجھ ہے انھیں ملنا نہیں چاہیے۔

یہ ملاقات استحکام پاکستان پارٹی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی۔ استحکام پاکستان پارٹی کو یہ تاثر دور کرنا ہے کہ وہ ن لیگ یا پی ڈی ایم کی کوئی بی ٹیم ہے۔ اس لیے یہ ملاقات نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ ایسا تاثر دینا چاہیے کہ اس ملاقات سے انکار کیا گیا ہے۔

میری رائے میں اگر عون چوہدری کو استحکام پاکستان پارٹی کے اہم عہدے دیے گئے ہیں تو انھیں شہباز شریف کی کابینہ سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف استحکام پاکستان پارٹی اپنی الگ شناخت کے لیے سیاست کرے اور دوسری طرف ان کا اہم عہدیدار شہباز شریف کی کابینہ کا ممبر ہے۔ اسی طرح نعمان لنگڑیال کو بھی استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت دو کشتیوں کی سوار نہیں ہو سکتی۔ واضح پالیسی کے بغیر کوئی سیاسی جماعت نہیں چل سکتی۔

استحکام پاکستان پارٹی کے حوالے سے سب ایک ہی سوال کر رہے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک کہاں سے آئے گا۔یقینا ان کو سمجھ ہوگی کہ وہ اب نواز شریف یا کسی اور جماعت کا ووٹ بینک تو حاصل نہیں کر سکتے۔

ان کے لیے واحد آپشن یہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ووٹر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوئی حکمت عملی بنائیں۔ جیسے جیسے تحریک انصاف کا ووٹر بد ظن ہو تواس کے لیے واحد چوائس استحکام پاکستان پارٹی ہی بن جائے۔ وہ بیلٹ پیپر حاصل کرے تو استحکام پاکستان پارٹی پر مہر لگانے پر مجبور ہو جائے۔

اس لیے اس کام کے لیے انھیں کہیں نہ کہیں ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے دوری رکھنا ہوگی۔ اگر راجہ ریاض آجاتے ہیں تو ایک بہتر اپوزیشن بھی کہی جا سکتی ہے۔جیسے جیسے تحریک انصاف کمزور ہو گی ویسے ویسے استحکام پاکستان پارٹیٰ کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔

جیسے جیسے چیئرمین تحریک انصاف کمزور ہوںگے، استحکام پاکستان پارٹی کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔ جیسے جیسے وہ مائنس ہوں گے، انھیں پلس ہونے کا موقع ملے گا۔ لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔ اس کے لیے استحکام پاکستان پارٹی کو ایک واضح سیاسی پالیسی کے ساتھ سامنے آنا ہوگا۔ گو مگو کی سیاست نہیں چل سکے گی۔ ووٹر کو سمجھانا ہے۔

تحریک انصاف کے غلط فیصلوں کو سامنے لانا ہے اور ووٹر کو بتانا ہے کہ ان غلط فیصلوں سے کتنا نقصان ہوا ہے۔ ووٹر کو بتانا ہے کہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا کتنا بڑا بلنڈر تھا۔ صوبائی اسمبلیاں توڑنا کتنا بڑا بلنڈر تھا۔ القادر ٹرسٹ کی کہانی کو آگے لے کر چلنا ہے۔ ووٹر کو بتانا ہے قیادت کے غلط فیصلوں کی قیمت قوم اور ہم نے چکائی ہے۔ سابق دور کی کرپشن کی مزید کہانیاں سامنے لانا بھی اب استحکام پاکستان والوں کا کام ہے۔ کیوںیہ اب ان کی جنگ ہے۔

ان کا ٹارگٹ نواز شریف نہیں پی ٹی آئی کا قائد ہے۔ جب تک وہ یہ نہیں سمجھیں گے آگے چلنا مشکل ہوگا۔ یہی ان کے پاس واحد آپشن ہے۔ اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے آپشن کو وقتی طور پر ختم کر کے آگے کا لائحہ عمل بنانا ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاسی موت ہی استحکام پاکستان پارٹی کی زندگی ہے۔

Leave a Reply