Istehkam Pakistan party?

استحکام پاکستان پارٹی؟




ہماری قومی سیاسی تاریخ بوالاعجمیوں یعنی عجیب و غریب واقعات اور وارداتوں سے عبارت ہے 1947 تا 1956، پہلے آئین پاکستان کی تشکیل تک کے واقعات، پھر 1956 تا 1958 پہلے مارشل لا کے نفاذ تک کے واقعات پھر 1958 تا 1962، پاکستان کے دوسرے آئین کی تشکیل و تنقید اور پھر 1969 تک ایوبی دور حکمرانی اور 1971 میں سقوط مشرقی پاکستان تک کے سیاسی، جمہوری، مارشل لائی اور نیم مارشل لائی ادوار کی کہانیاں ”پڑھتا جا شرماتا جا“ کے عنوانات سے مزین ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان تک ہماری سیاسی تاریخ تاریک اور بڑے سانحے کی تاریخ ہے اسی دور میں 1967 میں پیپلز پارٹی کا قیام بھی ایک اہم واقعہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اس سے پہلے ہی ایوبی سیاست کے دور میں اپنا نام اور مقام متعین کر چکے تھے۔ 1967 میں قیام پیپلز پارٹی اور پھر 1970 کے عام انتخابات میں انہوں نے بطور قومی لیڈر اپنی پوزیشن مستحکم کر لی تھی۔ دسمبر 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ ایک نئے رنگ ڈھنگ سے آگے بڑھتی نظر آئے گی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ مسلم لیگ کی تاریخ ہے کیونکہ پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد کا ثمر ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی زیرک اور تابناک قیادت نے ہی اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست کے قیام بلکہ تخلیق کو ممکن بنایا تھا وگرنہ برصغیر پاک و ہند میں اپنا نام و مقام رکھنے والی دیگر دینی و سیاسی قد آور شخصیات تو قیام پاکستان کے تصور سے ہی الرجک تھیں وہ قائداعظمؒ کو مسلمانوں کا لیڈر بھی تسلیم نہیں کرتی تھیں لیکن مسلم لیگ کے پرچم تلے قائداعظمؒ کی دور اندیش قیادت میں ہندی مسلمانوں نے عظیم سیاسی جدو جہد کے ذریعے قیام پاکستان کو ممکن کر دکھایا۔
قیام پاکستان کے بعد بننے والی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلم لیگ کے بطن سے ہی جنم لیتی نظر آتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے علاوہ جمعیت علما اسلام اور جمعیت علما پاکستان بھی ہندوستان کی دینی سیاست کا نتیجہ ہیں۔ ہماری قومی سیاست پر مسلم لیگ کی باقیات بھی چھائی ہوئی ملتی ہیں آج بھی مسلم لیگ ہی نواز شریف کی قیادت میں ملک کی صف اول کی سیاسی جماعت کے طور پر میدان عمل میں نظر آتی ہے۔
جنرل ضیا الحق کے دور میں پولیٹیکل انجینئرنگ کا آغاز ہوا۔ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے نواز
شریف کو میدان سیاست میں اتارا گیا۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کے زور کو توڑنے کے لیے کراچی و حیدر آباد میں ایم کیو ایم کی تخلیق کی گئی۔ پھر نواز شریف کو کمزور کرنے کیلئے جنرل مشرف نے ق لیگ کا ڈول ڈالا۔ عمران خان کی پی ٹی آئی کی پیدائش ویسے تو عالمی صہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہوئی لیکن یہاں پاکستان میں جنرل باجوہ و دیگر سپائی چیفس نے نواز شریف کا زور توڑنے کے لیے عمران خان اور اسکی پی ٹی آئی کو استعمال کیا۔ جب عمران خان نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا شروع کیا اور عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنا شروع کیا تو انہیں بھی ”کٹ ٹو سائز“ کر دیا گیا۔
عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے جہانگیر ترین کو استعمال کیا گیا جنوبی پنجاب کے محاذ تلے اڑتے پرندے اکٹھے کیے گئے اور انہیں عمران خان کے آشیانے تک پہنچایا گیا۔ اس طرح عمران خان حکمران بنائے گئے۔ 2022 میں جب انہیں اقتدار سے الگ کرنے کی باتیں شروع ہوئیں تو ایسے تمام پرندے ایک بار پھر اڑنے لگے اور عمران خان حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ پنجاب اور کے پی کے میں انہوں نے خود دھڑن تختہ کر دیا۔ 9 مئی 2023 کے واقعات کے بعد ”قاسم کے ابو“ کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ جہانگیر ترین ایک بار پھر متحرک ہو گئے ہیں اس مرتبہ پاکستان استحکام پارٹی کا ڈول ڈالا گیا ہے۔ یہ پارٹی جنوبی پنجاب محاذ قائم کرنے والوں کی طرح ہوس اقتدار اور ہوس مال کا شکار سیاستدانوں نہیں بلکہ زر پرست، اقتدار پرست اور بے ضمیروں پر مشتمل گروہ ہے جو آج نہیں تو کل، کونسل اور کنونشن مسلم لیگوں کی طرح، پیپلز پارٹی پیٹریاٹوں کی طرح، جونیجو و چٹھہ لیگوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بننے جا رہی ہے۔
ہمارے ہاں تاریخی شعور تو دور کی بات ہے، عام سیاسی شعور بھی نہیں ہے۔ ابلاغ عام کی فراوانی ضرور ہے معلومات کا پھیلاؤ ضرور ہے لیکن شعور کی کمیابی ہے۔ انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی کو سہل ضرور بنا دیا ہے لیکن اس معلومات سے تاریخی و سیاسی شعور کا حصول ابھی تک ہماری دسترس میں نہیں آیا ہے ہم آج بھی کروڑوں بھیڑ بکریوں پر مشتمل ایک انبوہ کثیر ضرور ہیں جس کے مجموعی ٹیکسوں کی آمدنی (9200 ارب روپے) کا 50 فی صد سے زائد صرف قرضوں کی ادائیگی پر اٹھ جاتا ہے جو قوم تعلیم پر صرف 82 ارب جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ کے ذریعے امداد جاری کرنے پر 450 ارب خرچ کرتی ہو اس کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ ہمارا حال، بلکہ بدحال ہمارے مستقبل کا غماز ہے ہم باوقار، باعزت اقوام کی صف میں کھڑے نہیں ہیں ہم بین الاقوامی بھکاری قوم کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں دنیا میں کہیں بھی تخریب کاری ہو، اس کے ڈانڈے ہمارے ہاں ملیں گے حد یہ ہے کہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی غیر قانونی منتقلی بھی ہمارے ”شاندار کارناموں“ میں لکھی جا چکی ہے۔ ہم سیاسی انارکی، معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ معاشرتی زبوں حالی کا بھی شکار ہیں۔ معاملات حتمی تباہی و بربادی کا پیغام دے رہے ہیں کسی کو خبر نہیں، کسی کو فکر نہیں سیاستدان اقتدار، اقتدار اور صرف اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں اور یہ سب کچھ ہوس زر کو پورا کرنے کے لیے ہے ہمارے مقتدر حلقے بشمول عدلیہ و فوج اور بیوروکریسی کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے عوام پریشان و پشیمان ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ باقی اللہ خیر کرے۔

Leave a Reply