Mulk kese traqi krta hai ‘ cheen sabq lein

ملک کیسے ترقی کرتا ہے‘چین سے سبق لیں 




دوسری جنگ عظیم میں گو کہ اس وقت کا سوویت یونین امریکہ‘ انگلستان اور دوسرے کئی یورپی ممالک کے شانہ بشانہ ہٹلر کے جرمنی کےخلاف لڑا تھا پر نیرنگی سیاست دیکھئے جب دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی تو انگلستان اور امریکہ سوویت یونین کے خلاف کمربستہ ہو گئے اور ان کی سیاسی ترجیحات میں کمیونزم کا صفایا سر فہرست ہو گیا‘ اب لینن کے فرمودات کارل مارکس کے وضع کردہ اکنامک ماڈل اور سٹالن کے گورننس کے سٹائل کو ختم کرنے کےلئے انہوں نے دنیا بھر میں cold war یعنی سرد جنگ شروع کر دی اور دنیا نیٹو اور وارسا پیکٹ کے سائے تلے دو متحارب عسکری اور سیاسی بلاکس میں تقسیم ہو گئی یہ سیاسی کش مکش 1980 ءکی دہائی تک جاری رہی‘ تاوقتیکہ سوویت یونین کے جب تک حصے بخرے نہ ہو گئے‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تمام 
عرصے میں ماﺅزے تنگ اور چو این لائی کی قیادت میں چین یہ سب کچھ سائیڈ لائن سے خاموش تماشائی کی صورت میں دیکھتا رہا حالانکہ نظریہ کے لحاظ سے وہ کمیونسٹ ملک تھا‘ غالباً جو چینی لیڈر چین میں 1949 ءمیں سرخ انقلاب لانے تھے ‘یعنی ماوزے تنگ اور چو این لائی اور ان کے دیگر کامریڈ وہ یہ چاہتے تھے کہ چین کو عجلت میں دنیا کے جھمیلوں میں پھنسانے اور عالمی سیاست کے اکھاڑے میں اتارنے سے قبل اس کی پہلے تعمیر نو ضروری ہے‘ چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ 2014 ءتک چین کی قیادت نے صرف اور صرف چین کی ترقی پر سو فیصد اپنی توجہ مرکوز رکھی اور جب وہ سائنسی معاشی تعلیمی اور عسکری لحاظ سے اس قابل ہوا کہ دنیا کی کسی بھی دیگر سپر پاور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے تو تب کہیں جا کر اس نے عالمی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا شروع کیا ‘چین کی قیادت نے اس بات کو انا پرستی کا معاملہ نہیں بنایا کہ بس مارکسزم پر مبنی معاشی نظام میں کسی اور نظام کی آ میزش نہ کی جائے‘ اس نے مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام معشیت سے بھی کئی ایسے عوام دوست کانسپٹ مستعار لے کر ان کا مارکسزم کے ساتھ اختلاط کر کے چین میں مکسڈ اکانومی کا کامیاب تجربہ کیا اسی 
قسم کا تجربہ یوگو سلاویہ کے حکمران مارشل ٹیٹو نے بھی اپنے ملک میں کیا جو وہاں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا چین نے تھوڑے عرصے میں زندگی کے ہر شعبے میں جو حیرت انگیز ترقی کی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے نظام حکومت میں ایک ربط ہے ایک تسلسل ہے اس کی قیادت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ شارٹ ٹرم فوائد کے بجائے لانگ ٹرم فوائد کا سوچ کر ترقیاتی منصوبوں کی پلاننگ کی ہے اس نے ہمیشہ جوش سے زیادہ ہوش کا دامن تھاما ہے چین کے ارباب اقتدار نے اپنے عوام کی فلاح کے واسطے جو پالیسی بھی مرتب کی جس قسم کا بھی منصوبہ بنایا اس کا محور یہ تھا کہ اس سے چین کے عام آدمی کا کتنا بھلا ہو گا ‘بھلے وہ تعلیم کا میدان تھا‘ طب کا‘ پبلک ٹرانسپورٹ کا یا خوراک کی فراہمی یا ملک سے بے روزگاری ختم کرنے کا کوئی منصوبہ ۔

Leave a Reply