Pakistan ka intkhab : America ya cheen?

پاکستان کا انتخاب:امریکہ یا چین؟




ہم میں سے کون ہے جس نے منٹو کا افسانہ ٹھنڈا گوشت نہیں پڑھا۔ بڑے ادب کی نمود ایک سہ نکاتی قوس بناتی ہے، استرداد، قبول عام اور پھر ضرب المثل۔ سنسر کے محتسب، صحافت کے متحجر کتبے اور کور ذوق مدرِس البتہ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں، تخلیقی عمل اور تہذیب کا سفر ان حیاتیاتی حادثات سے بے نیاز ہوتا ہے۔ چوہدری محمد حسین اور میر نور احمد کو کون جانتا ہے؟ لمحاتی پذیرائی کے غلغلے میں لکھے اداریے وقت کی گرد میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کا جوہر شناس مسافر کائی زدہ نشیبی منطقوں سے بے نیاز لعل و گہر منتخب کرتا چلا جاتا ہے۔ ’ٹھنڈا گوشت‘ میں منٹو نے ایک مکالمہ کمال کا لکھا ہے، ’ہون دے فیر اج گستاخیاں‘۔ درویش منٹو کی ’پرکاری‘ کا ترجمہ نہیں کر رہا، فقط ارادہ ہے کہ سیاست اور معیشت کے کچھ کڈھب موضوعات پر گستاخیاں کی جائیں۔

امریکی ماہر سیاسیات گراہم ایلیسن (Graham Allison) نے 2017ء میں اپنی کتاب Destined for War میں ایک اصطلاح Thucydides’ Trap متعارف کروائی۔ یونانی مورخ Thucydides کا حوالہ دے کر ایلیسن نے یہ نتیجہ نکالا کہ گزشتہ پانچ صدیوں میں کم از کم 16 ایسے موڑ آئے جب ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت نے مقتدر عالمی طاقت کی جگہ لینا چاہی۔ ایسی کوشش بارہ مواقع پر جنگ پر منتج ہوئی۔ گزشتہ 40 برس میں چین کی معاشی ترقی حیران کن رہی ہے۔ 1978ء میں چین کی 90فیصد آبادی انتہائی غربت میں گھری تھی۔ 2018ءمیں چین میں انتہائی غربت کی شکار آبادی کی شرح صرف ایک فیصد رہ گئی۔ 2004ء میں چین کی معیشت کا حجم امریکہ سے نصف تھا۔ دس برس بعد 2014 میں دونوں معیشتوں کا حجم برابر ہو گیا۔ حالیہ معاشی اتار چڑھائو کے بعد امریکہ کی معیشت کا موجودہ حجم 23.3 کھرب ڈالر ہے جبکہ چین 17.7کھرب ڈالر کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ برآمدات میں چین امریکہ سے آگے نکل چکا۔ دنیا کے بڑے بینکوں میں سے چین پہلے اور امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔ گویا چین امریکہ کے ساتھ دوڑ میں آگے جا رہا ہے۔ ایک نئی دو قطبی دنیا وجود میں آ رہی ہے۔ امریکہ نے 2021ءاور 2023ءمیں جمہوری ملکوں کی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ پاکستان دونوں مواقع پر شریک نہیں ہوا۔ چین نے جمہوری اقدار کے نام پر متوازی کانفرنس منعقد کی تو پاکستان اس میں شریک ہوا۔ پاکستان میں بحث جاری ہے کہ نئی عالمی صف بندی میں پاکستان کو چین یا امریکہ میں سے کس کیساتھ کھڑے ہونا ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین اور امریکہ میں دشمنی کا تعلق تھا جبکہ امریکہ اور چین میں مقابلے کی دوڑ ہو رہی ہے۔ امریکہ براہ راست جنگ کی بجائے درآمد اور برآمد میں اتار چڑھائو کے ذریعے چین پر اثر انداز ہونا چاہتا ہے۔ امریکہ کو چین پر ٹیکنالوجی اور فوجی استعداد میں برتری حاصل ہے جبکہ چین کو معاشی پیداوار اور اپنے حجم کا فائدہ مل رہا ہے۔ دونوں ممالک نے مختلف علاقائی اتحاد قائم کئے ہیں۔ چین جیسا بڑا ملک پاکستان کا ہمسایہ ہے۔ اوقیانوس کے پار موجودہ سپر پاور امریکہ ہے جو پاکستان کے معاشی مفادات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چین اور امریکہ میں باہم تجارت کا حجم 621ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ بھارت اور امریکہ میں تجارت کا حجم 129 ارب ڈالر ہے۔ چین اور بھارت میں باہم تجارت 100 ارب ڈالر سے بڑھ چکی۔ دوسری طرف امریکہ پاکستان کا واحد نفع بخش تجارتی شراکت دار ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں میں تجارت کا کل حجم 6.6 ارب ڈالر ہے جبکہ چین کیساتھ تجارت میں پاکستان کا خسارہ 15ارب ڈالر ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضوں میں ایک تہائی قرضہ چین سے لیا گیا ہے۔ پاکستان کا کل معاشی حجم صرف 348ارب ڈالر ہے اور آئندہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو کا ہدف 0.29فیصد ہے۔

پاکستان روز اول ہی سے اپنی معیشت چلانے کیلئے بیرونی امداد کا محتاج رہا ہے۔ قائداعظم نے مرزا ابوالحسن اصفہانی کے ذریعے امریکہ سے دو ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد کی درخواست کی تھی جو نامنظور کر دی گئی۔ تاہم 2002ءسے 2013ءتک پاکستان کو امریکہ سے 26ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد دی گئی۔ 75 سال میں پاکستان کو ملنے والی کل امریکی امداد کا تخمینہ 76 ارب ڈالر ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کا رشتہ تزویراتی کی بجائے باہم ضرورت پر مبنی رہا ہے۔ پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ عالمی صف بندی پر اثر انداز ہو سکے۔ یہ جولائی 1971ء نہیں جب پاکستان نے چین اور امریکہ میں تعلقات بحال کرانے میں کردار ادا کیا تھا۔ یہ بھی مدنظر رہے کہ مشرق میں بھارت جیسے بڑے ہمسائے کی شرح نمو 6 سے 8 فیصد کے درمیان ہے اور آبادی چین کے برابر ہے۔ چین کی شرح نمو 4.5فیصد ہے۔ بھارت اور امریکہ میں تزویراتی تعلق پایا جاتا ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ ایسا ہی تعلق چاہتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مستقل اور مسلسل تعلقات کیلئے داخلی معاشی اور سیاسی توانائی درکار ہوتی ہے۔ داخلی اور خارجہ محاذ پر پاکستان کے گزشتہ اقدامات سے مغرب بالخصوص امریکہ میں اعتماد کا بحران پیدا ہوا ہے۔ ہمارے خطے میں بھارت کو بالآخر چین کیساتھ براہ راست مقابلے میں اترنا ہے۔ پاکستان کا چین کیساتھ غیر مشروط تعلق پاک بھارت تعلقات کی ممکنہ بحالی میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب پاکستان کو اقتصادی بیل آئوٹ دینے سے انکاری ہے تو چین کہیں زیادہ محتاط معاشی طور طریقے رکھتا ہے۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف اور امریکہ کے شکنجے سے گھبرا کر چین کا رخ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ ہمارے معاشی بحران کا پائیدار حل نہیں۔ پاکستان کی جمہوری اور تمدنی اقدار بھی چین کے ساتھ نامیاتی طور پر میل نہیں کھاتیں۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار میں ہماری روایت چین کی ترجیحات سے مختلف ہے۔ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ پیداواری معیشت، جمہوری تسلسل اور متوازن خارجہ پالیسی۔

Leave a Reply