Police ki trjihat mn awam kahan

پولیس کی ترجیحات میں عوام کہاں




مانا کے بھوک مٹا دیتی ہے تہذیب کے آداب۔ افلاس سے تو برگزیدہ ہستیوں نے بھی پناہ مانگی ہے۔ پیٹ کی بھوک بڑھنے لگے تو انسان ایسے قبیح افعال بھی کر گزرتا ہے جس کا وہ عام حالات میں تصور نہیں کرسکتا۔
پنجابی کی کہاوت ہے کہ ’پیٹ نہ پیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر ریاست اپنے باسیوں کے لیے مناسب روزگار اور انکی روزی روٹی کویقینی بنانے میں ناکام ہو جائے تو پھر یہاں جینا اور اسکا چلنا آساں نہیں رہتا۔یقینا اس سے امن و امان کی صورت حال مخدوش ہوگی، لوٹ مار، چوری اور قتل و غارت گری معمول بنے گی، یوں ریاست کا پورا نظام تلپٹ ہوکر رہ جائے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ایک طویل عرصہ سے کچھ اسی طرح کی صورت حال سے نبرد آزما ہے۔موجودہ حالات میں صورت حال مزید سنگین ہوچکی ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ایک طرف آبادی کے ایک بڑے طبقے کے لئے مشکل تر ہوتا جارہا ہے تو دوسری جانب ریاست پاکستان امراء، رؤسا اور طاقتور طبقات کے لئے کسی جنت سے کم نہیں۔چند ہزار ارباب ِاختیار پہلے بھی اور اب بھی اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے ریاست پاکستان کو عام پاکستانیوں کے لئے جہنم بنا کر رکھ دیا ہے عوام کے لئے باعزت زندگی گزارنا گویا جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکاہے۔ ارباب اختیاراور ان کی خویش و اقارب سیاہ و سفید کے مالک بن کر اقتدارو اختیار کے تمام سوتوں پر قابض ہوچکے ہیں۔ ایسے میں انصاف مفقود ہوچکا ہے۔حقائق اور اعدادو شمار بتا رہے ہیں کہ ملک میں اس وقت مختلف نوعیت کے جرائم کا ارتکاب اپنے عروج پر ہے۔اپنی آبادی کے تناسب سے چوری، ڈکیتی اور دیگر سنگین نوعیت کے جرائم میں پنجاب سب پر سبقت لے چکا ہے۔ ملتان، گوجرانوالہ، راجن پور، ڈی جی خان، لاہور اور شیخوپورہ ریجن نے اس حوالے سے دیگر
اضلاع اور شہروں کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ لیکن ٹھہریے!کیا محض پولیس اس صورت حال کی تنہا ذمہ دار ہے؟ کیا ریاست کی دیگر اکائیاں بھی اس میں برابر کی شریک نہیں۔کیا نا اہل اور کوتاہ اندیش اہل اقتدار و اختیار، عدالتوں میں بکنے والا انصاف اور طاقتور بابو پاکستان کو اس نہج پر پہنچانے میں کوئی کردار نہیں رکھتے؟ کوئی شک نہیں کہ بربادی کی اس داستاں کو ضبط ِتحریر میں لانے میں ہر کوئی حصہ بقدر جُسہ شریکِ جرم ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں پولیس کے اعلیٰ افسران کی اکثریت سیاسی ہوچکی ہے یعنی ان کی تعیناتیوں سے لیکر ان کے کام کرنے کا انداز سب اپنے اپنے’سیاسی آقاؤں‘ کی احکامات اور مرضی و منشا کے زیر اثر ہوتا ہے۔ عوام ان’سیاسی پولیس افسران‘ کی ترجیحات میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتے۔ان افسران کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ انہیں اچھی پوسٹنگ سیاسی اثرو رسوخ کے بغیر مل ہی نہیں سکتی اور وہ تب تک وہاں رہیں گے جب تک سیاسی آقا خوش رہیں گے۔ اس لیے ا پنے اصل آقاؤں کو خوش رکھنا ان افسران کی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ ماضی میں پولیس افسران کے پاس یہ جواز تھا کہ وہ جرائم اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف اس لیے کامیاب نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو جدید اسلحہ موجود ہے اور نہی ہی سہولیات۔ تاہم حکومت کے جانب سے پولیس کے بجٹ میں تسلسل سے خطیر اضافہ کیا جاتا رہا ہے اور اب یہ اربوں روپوں تک پہنچ چکا ہے تاہم ڈھاک کے وہی تین پات، کارکردگی وہی صفر۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور ان دنوں خاصے ’سرگرم‘نظر آتے ہیں۔ پولیس کا بجٹ جس طر ح محکمہ پولیس اور اس کے اہلکاروں پر لُٹایا جارہا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ طرہ اس پر یہ کہ ایسے میں ہر روز نیا فوٹو سیشن اور آئی جی پنجاب کی دادو تحسین کے نعرے الگ۔ اچھی بات ہے پولیس اہلکاروں کی مسائل حل ہونے چاہیں۔ان کی فلاح بھی ہونی چاہیے۔اس پر کس بات کا اعتراض۔ تاہم پنجاب پولیس کے سربراہ کو یہ گوش گزار کرنے کی جسارت کون کرے کہ جناب! آپ اور آپکے محکمے کے لئے عوامی ٹیکسوں سے حاصل اس اربوں روپے کے بجٹ، سہولیات اور عہدوں کا اصل مقصد صوبے کے معصوم باسیوں کے جان و مال کا تحفظ اورانہیں انصاف کی فراہمی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا پولیس کلچر تبدیل ہوچکا ہے؟کیا تھانے عقوبت خانے نہیں رہے؟کیا سڑکوں اور چوراہوں پر عوام لُٹ نہیں رہے؟ کیا شیر جوانوں کے ہاتھوں عام آدمی کی عزت نفس محفوظ ہے؟ کیا جعلی پولیس مقابلے رک چکے ہیں؟کیا یہ حقیت نہیں کی صوبہ پنجاب میں سٹریٹ کرائم اور سنگین جرائم کی وارداتیں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق اپنی جگہ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بھی ایسے پولیس افسران و اہلکار موجود ہیں جواس حالتِ طوائف الملوکی میں بھی خدا کو نہیں بھولے۔ اگرچہ کہ سسٹم میں عام آدمی کو ریلیف حاصل نہیں تاہم پھر بھی یہ افسران ذاتی طور پر لوگوں کو انصاف دینے کے لئے تگ و دودکرتے نظر آتے ہیں۔ملکی و بین الاقوامی پولیسنگ کے تجربے کے حامل سینئر پولیس افسر بی اے ناصر محکمہ پولیس اور عوام میں اچھی شہرت کے حامل اور ’پولیسنگ بائے بُک‘ کے قائل ہیں۔ڈی آئی جی انعام وحید ایک انتہائی دیانتدار، پروفیشنل اور خدا ترس پولیس افسر ہیں۔ ڈی آئی جی اشفاق خان اور ڈی آئی جی افٖضال کوثر کا شمار پروفیشنل افسران اور عوام کو ریلیف دینے والے افسران میں ہوتا ہے۔اگرچہ کے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانے کے لب و لہجے کے کئی لوگ ناقد نظر آتے ہیں تاہم لاہور میں کرائم گراف کو نیچے لانے اور بہتر کنڑول کے ساتھ ماتحتوں سے کام لینے اور عوام کو ریلیف دینے میں وہ ایک اچھی اورمنفرد ساکھ رکھتے ہیں۔ڈی آئی جی ساجد کیانی اگرچہ کہ زیادہ خوش قسمت نہیں رہے اور لاہور اور راولپنڈی میں تعیناتی کے دوران کچھ ایسے حادثات رونما ہوئے جن کے باعث ان کے کیرئیر پر ایک بڑا سوالیہ نشان آیا تاہم وہ ایک پروفیشنل اور دیانتدار افسر ہیں جو دھیمے لہجے کے باوجود اپنے ماتحتوں پر مضبوط کنٹرول کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ڈی آئی جی کامران عادل پولیسنگ کی باریک بینیوں سے آگاہ اور پورے جذبے کے ساتھ پروفیشنل ورک کو سرانجام دینے میں جُٹے نظر آتے ہیں۔ڈی آئی جی شہزادہ سلطان اور ڈ ی آئی جی شارک جمال جب تک ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور رہے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ان سے ریلیف ملا۔ڈی آئی جی منیراحمد ضیاء،ڈی آئی جی رائے بابر،ڈی آئی جی احمد جمال اور ڈی آئی جی غازی صلاح الدین کا شمار میں بھی اچھے پولیس افسران میں ہوتا ہے۔

Leave a Reply