Siasi istehkam ky bina mashi khud inhsari ki khawahish

سیاسی استحکام کے بنا معاشی خودانحصاری کی خواہش




وزیراعظم شہبازشریف نے پنجاب کے بجٹ کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں اقتصادی خودانحصاری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مختلف شعبوں کی ترقی کے لیے اقدامات بہت غوروفکر کے بعد تجویز کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے بتایا کہ سستی توانائی‘ اقتصادی ترقی اور عوام کو ریلیف پہنچانا ان کے لیے اہم ہے۔ انہوں نے روس سے خام تیل کے حصول کو انرجی پالیسی کا حصہ قرار دیا۔ وزیراعظم جس روز معیشت کو خودانحصاری کی طرف لے جانے کی خواہش کا اظہار کر رہے تھے اسی روز سینٹ اور قومی اسمبلی میں 9 مئی کے افسوسناک واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی کی قراردادیں منظور کی جا رہی تھیں۔ ایوان زیریں میںوزیر دفاع خواجہ آصف نے قرارداد پیش کی۔ جس میں کہا گیا کہ ایک جماعت اور اس کے سربراہ نے تمام حدیں پار کردیں۔ ریاستی اداروں اور ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ دنیا میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں ہی چلتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے رکن مولاناچترالی نے اختلافی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت اور عدلیہ ناکام ہو چکی ہیں جو مقدمات سول عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں میں چلانے کی قرارداد پیش کی جا رہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات اس لحاظ سے افسوسناک اور قابل مذمت ہیں کہ سیاسی اشتعال کو ریاستی اداروں کے خلاف موڑنے کی کوشش کو تحریک انصاف نے بروقت نہیں روکا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے وہ ساتھی جو احتجاج میں شریک تھے انہیں چاہیے تھا کہ کارکنوں کو ان کی ریڈ لائن سے آگاہ کرتے۔ بہرحال جن لوگوں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ چند روز قبل کورکمانڈر اجلاس میں بھی 9مئی کو شہداء کی یادگاروں اور عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا کہا گیا۔ اس ایک نکتے پر عام شہری‘ عسکری قیادت اور حکومت متفق دکھائی دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ پیدا ہورہا ہے کہ حکومت نے 7 ہزار کے قریب سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ توڑ پھوڑ اور حملہ کرنے والے چند درجن یا دو اڑھائی سو لوگ ہوسکتے ہیں۔ سات ہزار لوگ وہ ہیں جن کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ سات ہزار لوگ سات ہزار خاندان ہیں۔ ان کے عزیز رشتہ دار اور دوست احباب بھی ہوں گے جو شفاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت ابھی تک خود کو ایک آڑ میں رکھتے ہوئے کارروائیاںکر رہی ہے۔ اس کا نقصان یہ ہونے لگا ہے کہ بین الاقوامی تنظیموں کی تنقید کا ہدف سکیورٹی ادارے بن رہے ہیں۔ حکومت کی یہ حکمت عملی قابل ستائش نہیں۔ سیاسی تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ جس معاشرے میں برداشت اور مکالمہ کی بجائے انتقام رواج پا جائے وہ زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جھگڑے اور تصادم اس وجہ سے پھیلتے رہے ہیں کہ تنازعات کو جمہوری اداروں کے ذریعے طے نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کا آخری قابل داد عمل 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے وقت اختیار کی گئی حکمت عملی تھی۔ پی ٹی آئی نے اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا لیکن اس وقت کے سپیکر ایاز صادق نے استعفے روک لیے۔ اسمبلی واپسی کے لیے پارلیمنٹ نے ایک مذاکراتی کمیٹی بنائی۔ ایوان میں واپس آنے پر حکمران جماعت مسلم لیگ نواز اور جے یو آئی کا ردعمل غیر مناسب تھا لیکن اپوزیشن پیپلزپارٹی نے بھرپور سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔ درپیش سیاسی بحران پاکستان کی معیشت کو نگل رہا ہے۔ حکومت اس لیے پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ نہیں کہ اسے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اب اس کے لیے کوئی خطرہ نہیں‘ حکومت یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں کہ خطرہ صرف طاقت سے نہیں ہوتا عوامی رائے کی اپنی قوت ہوتی ہے جو کسی مناسب وقت پر اپنا رد عمل دیا کرتی ہے۔ عمران خان نے ساڑھے تین سال کے اقتدار میں بہت سا وقت ضائع کیا۔ وہ اپنے مخالفین کو غیر مقبول بنا کر یہ سمجھ رہے تھے کہ اب سیاسی طور پر وہ مضبوط ہیں۔ وہ سیاسی کشیدگی کم کرتے‘ مخالفین سے بات کرتے اور رویے میں لچک لاتے تو ان کے لیے آسانی پیدا ہوتی۔ ان کی اس حکمت عملی کا فائدہ ملک کو ہوتا‘ جمہوری روایات پروان چڑھتیں‘ اب پی ڈی ایم وہی کچھ کر رہی ہے۔ حکومت کے عزائم سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ آئندہ اقتدار کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح لوگوں کو سزا تو دی جا سکے گی لیکن یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ حکمران اشرافیہ نے اپنے لوگوں کو بچا لیا اور غریب کارکنوں کو سزا دی جا رہی ہے۔ چیئرمین اپٹما کا کہنا ہے کہ تین ارب ڈالر کے لیے حکومت نے ملک دائو پر لگا دیا اور آئی ایم ایف کے پائوں پکڑ رہی ہے۔استحکام ہو گا تو عالمی اداروں کا جبر کم ہو گا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کہہ رہے ہیں کہ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنا سب کی ذمہ داری ہے۔ وزیراعظم جس معاشی خودانحصاری کے خواہاں ہیں وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ملک میں سیاسی امن اور استحکام ہوگا۔ حکومت نے اب تک سیاسی استحکام کے حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا۔ ایسے میں خودانحصاری کیسے ملے گی؟

Leave a Reply