Siasi serab—

سیاسی سراب۔۔۔




ایک زمانہ تھا نوابزادہ نصراللہ خان ہوا کرتے تھے۔ حد درجہ تلخی میں بھی خوب رونق لگا لیتے تھے حالانکہ اس وقت ایسے تیز ترین میڈیا کا دور بھی نہ تھا۔ ہر روز لاہور میں اجلاس جاری رہتا صحافی ہر وقت اندر کی خبروں تک رسائی میں مشغول رہتے سیاستدان بھی بڑے معنی خیز بیانات دیتے اور وہ اگلے دن اخبارات کی سرخیاں بنتے تبصرہ کرنے والے اپنے اپنے اندازے لگاتے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ جنرل مشرف کے خلاف بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو اکٹھا کرنا تھا جو کہ حیران کن امر تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ نکلسن روڈ پر ایک مکان ان کی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ صدر مشرف اندرون خانہ بھی کچھ معاہدے کرنے کے حق میں تھے ان پر سعودی اسٹیبلشمنٹ کے کچھ تقاضے تھے جن میں سرفہرست میاں نواز شریف کی رہائی اور جلاوطنی کی پیشکش تھی۔ اس صورتحال سے حیران کن طور پر نواب زادہ نصراللہ اور دیگر سیاسی راہنما بالکل بے خبر تھے۔ مطلب مشرف نواز شریف اور سعودیز کے درمیان یہ سب کچھ چل رہا تھا۔ نوازلیگ بدستور نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ بھی چل رہی تھی یہ اتحاد کافی حد تک پریشر ڈالنے میں کامیاب ہورہا تھا اچانک ایک دن انہیں صبح فجر سے قبل اٹھا کر بتایا گیا کہ میاں نواز شریف کا پورا قبیلہ ان گنت بریف کیسز کے ساتھ انہیں بیچ کر چلا گیا ہے۔ اس وقت نوابزادہ صاحب نے تاریخی الفاظ حقے کا کش لگا کر کہے تھے کہ ساری زندگی سیاستدانوں پر اعتبار کیا زندگی میں پہلی دفعہ کاروباری سیاستدان پر اعتبار کیا اور پوری زندگی کی کاوشیں رائیگاں کروا لیں۔ مجبوراً محترمہ بھی برطانیہ چلی گئیں اور نوابزادہ نصراللہ بھی دنیا سے چلے گئے۔ بعدازاں اس خلا کو وکلا تحریک نے پر کیا جن کی قیادت افتخار چودھری دیگر ججز اور اعتزازاحسن اور ہمنوا کر رہے تھے۔ بڑی جاندار تحریک تھی جس پر بعد میں مشرف نے افسوس کا اظہار بھی کیا کہ مجھے افتخار چودھری صاحب کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس تحریک کے زور کا اندازہ لگائیں کہ چوبیس گھنٹے لگے جلوس کو اسلام آباد سے لاہور پہنچنے میں یہ تحریک کیوں ناکام ہوئی حالانکہ اس کے مرکزی مقاصد میں ججوں کی بحالی کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہو چکا تھا۔ عمران خان بھی اس تحریک کا حصہ تھے انہیں غور کرنا چاہیے تھا کہ یہ تحریک کیوں ناکام ہوئی یا انقلاب وغیرہ نہ لا سکی۔ برصغیر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں آپ کو حریت مزاحمت اس پیرائے میں نظر نہیں آئے گی جسے آپ انقلاب کہہ سکیں ۔کسی زمانے میں کوئی جماعت جب احتجاج کا اعلان کرتی تو حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے اور جب کوئی جماعت لاہور یا اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرتی تو عجیب ہیجانی کیفیت ہوجاتی۔ آج اگر آپ غور کریں تو احتجاج کے سارے طریقے آزمائے جا چکے ہیں اور سب سے زیادہ عمران خان صاحب نے ہی آزمائے ہیں آج بدقسمتی ہے کہ کوئی نوابزادہ نصراللہ خان موجود نہیں جو ان سب کو اکٹھا کرکے کسی ایک نقطے پر متفق کرے۔ برصغیر میں احتجاج کسی مسئلے کا حل نہیں نظام کے اندر رہتے ہوئے آپ کچھ کرسکتے ہیں۔ انڈیا، بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں وہ بھی بہت سارے مقاصد حاصل نہیں کرسکے مگر ملک کو معاشی طور پر درست سمت میں لے جا رہے ہیں۔ ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ کوئی ایک بھی مرکزی جماعت نہیں رہی وہ اس طرح کے چاروں صوبوں مطلب پاکستان میں کسی ایک جماعت کی بھرپور نمائندگی نہیں ایک دوسرے کے بندے ہی توڑ رہے ہیں اسی وجہ سے اتحادی حکومتیں وجود میں آرہی ہیں حد تو یہ ہے کہ صرف دس نشستیں رکھنے والی جماعت دونوں بڑی پارٹیوں کی موجودگی میں وزیر اعلی پنجاب جیسی مضبوط ترین عہدے پر رہ چکی ہے۔ ہمارا پارلیمانی نظام طویل عرصے سے بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے کوئی موثر قوانین نہ بن سکے کوئی ایک مرکزی لیڈر بھی نہیں کہتے سبھی ہیں کہ ہم سب مرکزی لیڈر ہیں آج الیکشن کروا دیں کیسی صورت حال ہوگی سب کو معلوم ہے ہر سیاسی جماعت ہر سیاسی لیڈر کا شکوہ ہے کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا اس کے باوجود ہر کوئی دوبارہ عوام کی خدمت کے لیے پرجوش بھی ہے۔ بڑی مشکل سے پیپلز پارٹی نواز لیگ ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے تھے یعنی اس پر بھی الزام کی یہ ہمیشہ ہی سے اندر سے ملے ہوئے تھے عوام کو بیوقوف بنا رہے تھے تو پھر جو ایک دوسرے کے خلاف انہوں نے انتقامی کاروائیاں کیں وہ کیا تھیں۔ عمران خان صاحب کی یہ بات درست تھی کہ میں نے ان پر مقدمات نہیں کیے بلکہ ایک دوسرے پر انہوں نے خود ہی مقدمات بنائے۔ خان صاحب انہیں أصلی ثابت کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے ہیں ایک کیچڑ ہے جس میں ہر کسی نے چھلانگ لگائی ہوئی ہے یعنی سب کے کپڑے داغدار ہیں خان صاحب کو جو لوگ چھوڑ کر گئے ہیں اور اب بھی کثیر تعداد انہی دونوں پارٹیوں کی ہے تو پھر فرق کیا ہے آج استحکام پارٹی وجود میں آئی ہے یعنی قاف لیگ پیٹریاٹس کا جدید ورژن ہے اب اگر الیکشن ہوتے ہیں تو امیدواثق ہے کہ ٹائی ہوجائینگے تو یہی وقتی استحکام لائینگے اور عدم استحکام بھی ۔ خان صاحب کتنی نشستوں کے ساتھ ساڑھے تین سال حکومت کرتے رہے بلکہ اس میں ان کا کیا کمال تھا یہ بات وہ فراموش کرگئے نرگسیت کی حد تھی اسلامی صدارتی نظام کی کی خواہشیں بھی تھیں نہ لیتے اتنا کمزور اقتدارجو صرف سات سیٹوں پر کھڑا تھا اپوزیشن کا مزید کردار ادا کرتے دوبارہ بھاری اکثریت سے آ جاتے زرداری صاحب ویسے ہی جوڑ اور آشیرباد سے اقتدار میں آنے کے قائل ہو چکے ہیں مطلب آج کوئی ایک بھی نظریاتی جماعت باقی نہیں رہی جو مرکزی معیار پر پورا اترے ۔دولت حکمران طبقات کا وہ شکنجہ ہے جس سے انتخابی نظام سے مڈل کلاس کو نکال دیا گیا ہے ہمارے تھنک ٹینک کیا سوچ رہے ہیں کسی کو خبر ہے تو بتا دیں؟ ایک آدمی دیوار میں ہتھوڑی سے کیل لگا رہا تھا ایک گھنٹہ گزر گیا لگ ہی نہیں رہا تھا چونکہ وہ کیل کا ٹوپی والہ حصہ دیوار سے لگا رہا تھا ایک آدمی اور آیا اس نے کوشش کی پیشکش کی وہ مان گیا وہ آدمی بھی اسی طرح کوشش کرتا رہا آدھ گھنٹے بعد تھک کر پسینے سے شرابور ہوکر بولا۔ اوہ یہ تو سامنے والی دیوار کا کیل ہے۔ کیل سیدھا نہیں کیا۔

Leave a Reply