Soft power ?

سافٹ پاور؟




ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان سیاسی و معاشی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اس کا ’سافٹ پاور امیج‘ دنیا کے سامنے پیش کیا جانا چاہئے کیونکہ پاکستان نے اپنی اِس ساکھ کو بنانے کے لئے طویل اور سخت جدوجہد کی ہے اور اِسی کی بدولت پاکستان کثیر الثقافتی اقدار کا مرکز بھی ہے‘ ’برانڈ فنانس‘ نامی ادارے کی جانب سے ’گلوبل سافٹ پاور انڈیکس 2023ئ‘ جاری کی ہے جس میں 121 ممالک میں پاکستان 84ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان اپنے روائتی اور علاقائی حریف بھارت سے بہتر ہے‘مذکورہ گلوبل فائر پاور رینکنگ جس میں 145ممالک کو فہرست کیا گیا ہے ان میں پاکستان ’ساتویں نمبر‘ پر ہے ‘ یہ بات محدود وسائل رکھنے والے ملک کےلئے باعث تسلی امر ہے‘ بلاشبہ پاکستان کو ’ہارڈ پاور‘ کی ضرورت ہے لیکن ’سافٹ پاور‘ وسائل کے حوالے سے واضح فرق ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زیربحث بنی ہوا ہے۔ گلوبل سافٹ پاور انڈیکس تقریباً چالیس اعشارئیوں پر مبنی ہے جس میں ”کسی ملک کے سیاسی اداروں کے معیار‘ اُن کی ثقافت‘ اُن کے سفارتی نیٹ ورک‘ اُن کے ہاں اعلیٰ تعلیمی نظام کا معیار و عالمی ساکھ‘ اُن کے معاشی ماڈل کی کشش اور دنیا کے ساتھ کسی ملک کی ڈیجیٹل وابستگی جیسے امور شامل ہیں‘ 2021ءمیں پاکستان 63ویں نمبر پر تھا جبکہ اِس کی موجودہ حالت کے پیش نظر اِسے 84ویں نمبر پر رکھا گیا ہے‘ امریکی پولٹیکل سائنسدان جوزف نائے‘ جو سافٹ پاور کے حامی ہیں‘ نے اِن مختلف میٹرکس کو سافٹ پاور کے تین بنیادی وسائل کی صورت پیش کیا ہے‘ پہلا سیاسی نظریات‘ دوسرا ثقافت اور تیسرا کسی ملک کی خارجہ پالیسی۔ وہ سافٹ پاور کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”جبر سے گریز کرتے ہوئے اور کشش میں اضافے کے ذریعے بھی حکومت وہ سب کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے“ سرد جنگ کے بعد سے مغربی ممالک نے اپنی عالمی پوزیشن کو بہتر بنانے اور مطلوبہ خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کےلئے سافٹ پاور وسائل کو اسٹریٹجک کے طور پر استعمال کیا‘ امریکہ کو اپنے لبرل جمہوری نظام اور ثقافت کے ساتھ سافٹ پاور کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ہالی ووڈ فلموں سے لےکر میڈونا تک اور گوگل سے ہارورڈ اور کوکا کولا سے میک ڈونلڈز تک سب سافٹ پاور کی نشانیاں ہیں۔ امریکی فنکاروں اور موسیقاروں نے امن اور وبائی امراض کے دوران ثقافتی سفیر کے طور پر کام کیا ہے۔ چین نے بھی اپنی سافٹ پاور امیج کو بہتر بنایا اور اِسے استعمال کیا۔ ایک سو باسٹھ ممالک میں اپنے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے چین ملکی و غیر ملکی طلبہ کے لئے تعلیمی و تربیتی حکمت عملیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ امریکہ‘ تائیوان‘ بھارت اور ہانگ کانگ کے خلاف جارحانہ خارجہ پالیسی کے باوجود چین ایشیا‘ بحرالکاہل‘ امریکہ اور افریقہ میں اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارتی مقبولیت رکھتا ہے اور چین نے اپنی سافٹ پاور امیج ہی کے ذریعے اپنے خلاف کھلنے والے بہت سارے محاذوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت بالی ووڈ فلموں‘ موسیقی‘ سلیکون ویلی اور اپنی پھلتی پھولتی سیاحت کے ذریعے دھوم مچا رہا ہے۔ جنوبی کوریا اپنے مقبول بینڈ ’بی ٹی ایس‘ کے ذریعے دنیا بھر میں دھوم مچا رہا ہے‘ جو آسکر ایوارڈ جیت چکا ہے۔ ثقافتی کشش کو بڑھا کر اور جمہوری سیاسی نظریات و ترقی کے مضبوط معاشی ماڈل کو فروغ دے کر‘ کوئی بھی ملک سافٹ پاور ساکھ کو ابھار سکتا ہے اور اِن وسائل کا استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر قابل اعتماد امیج کو فروغ دے سکتا ہے جو معاشرے پر مثبت طور سے اثر انداز ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں یا ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں‘ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے حمایت اور رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے دنیا بھر میں اس کی ثقافتی کشش میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ میڈیا اور تفریح کے ذریعے ایک دم توڑتی ہوئی صنعت ہے اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے سیاحت اور کھیلوں کے عالمی مقابلوں کو بھی روک دیا گیا ہے پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈکے اکیس مرتبہ بیل آو¿ٹ پیکجز مل چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ریلیف نظر نہیں آ رہا۔ ایف اے او‘ ڈبلیو ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان جو کہ زرعی ملک ہے لیکن ایتھوپیا‘ کینیا اور شام کی طرح غذائی عدم تحفظ کے خطرے سے دوچار ہے‘ اس سے ہماری عالمی ساکھ اور ممکنہ تجارتی فوائد کو نقصان پہنچا ہے۔ عوامی سفارتکاری کا وجود نہیں رہا اور ثقافتی سفارت کاری بھی جڑیں نہیں پکڑ سکی‘ خراب امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلوں کی میزبانی ’چیلنج‘ بنی ہوئی ہے جبکہ دنیا اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کےلئے سافٹ پاور کا استعمال کرتی ہے اور بالادستی حاصل کئے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری قومی ترجیحات کا قومی صلاحیت کو اُبھارنے میں کردار کم ہے۔ ہماری کثیر نسلی ثقافت سے خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔ سافٹ پاور کو بڑھانے کےلئے پاکستان کے پاس بے پناہ وسائل اور اثاثے ہیں جنہیں عالمی نظام میں ریاست کی طاقت کی حیثیت کو قانونی حیثیت دینے کےلئے ہارڈ پاور کے ساتھ مل کر تیار کیا جانا چاہئے۔ ثقافتی اور عوامی سفارتکاری کو فروغ دینے کےلئے نجی شعبے کے ساتھ مل کر حکومت کو ’اسٹریٹجک‘ اور ’پائیدار کوشش‘ کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا ہمیں لچکدار اور روادار جمہوریت کے طور پر دیکھے‘ جس کا تعارف بین الاقوامی اثر و رسوخ اور ابھرتی ہوئی معیشت ہونا چاہئے۔ یہ ایک طویل و مشکل سفر ہے اور اِس ہدف کو حاصل کرنے کےلئے سنجیدگی سے اقدامات کئے جانے چاہئیں (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: بیلم رمضان‘ترجمہ:اَبواَلحسن اِمام)

Leave a Reply