Tarekh aur awam yad rakhty hein

تاریخ اور عوام یاد رکھتے ہیں




ظلم بھی یاد رہتا ہے اور ظالم بھی۔ نہ تاریخ معاف کرتی ہے اور نہ ہی عوام۔ مگر کچھ ظالم ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں نہ تو تاریخ کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کی۔ چنگیز خان کا چین پر حملہ انسانی تاریخ کا بدترین حملہ تھا۔ عورتوں‘ بچوں پر تشدد کیا گیا۔ گھروں کی دیواریں پھلانگ کر رات کے اندھیرے میں بھی اور دن دیہاڑے بھی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں عصمت فروشی کے لیے غلام بنایا گیا۔ کچھ مرد روپوش ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ باقی تمام مردوں ، بچوں ، جانوروں اور مویشیوں کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ تقریباً ایک ملین لاشوں کا پہاڑ تھا جس کو جلایا گیا۔ مشرق وسطیٰ کے کچھ لوگ بشمول مورخین جنہوں نے اس ظلم و بربریت کے بعد یہاں کا دورہ کیا لکھتے ہیں کہ لاشوں کے جلنے کے بعد راستوں پر اس قدر چربی تھی کہ گھوڑے پھسلن کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے۔ اس قدر بدبو تھی کہ سانس لینا مشکل تھا۔ مشرق وسطیٰ کے ان مہم جو حضرات اور مورخین کی اکثریت گندگی اور انسانی باقیات کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث مر گئے۔‘ ان دنوں بغداد دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایک تھا۔ لائبریریاں جلا دی گئیں۔ علم و تحقیق و فلسفہ جو اس وقت بغداد میں اپنے عروج پر تھا وہ بھی اس کے ساتھ جل گیا۔ انسانی علم ضائع ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ 21 نومبر 1979ء کو جب تمام سول اور ملٹری اسٹیبشلمنٹ حرکت میں آئی ہوئی تھی۔ بادشاہ سلامت‘ مرد مومن اور خود ساختہ امیرالمومنین راولپنڈی کے راجہ بازار میں عوام کے سامنے سائیکل چلانے کا مظاہرہ کر رہا تھا کہ اسلام آباد میں امریکی ایمبیسی کو جلا دیا گیا۔ چونکہ ایمبیسی قائداعظم یونیوسٹی سے چند ہزار گز کے فاصلے پر تھی اور مرد مومن کو یقین تھا کہ یہ کام یونیورسٹی کے طلبائ‘ اساتذہ اور ملازمین نے کیا ہے چنانچہ موصوف نے اعلان کردیا کہ میں اس یونیورسٹی کو ریمائونٹ ڈپو یعنی گھوڑوں کے اصطبل میں تبدیل کردوں گا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یونیورسٹیوں کے بننے میں دہائیاں نہیں بلکہ صدیاں لگتی ہیں تب جا کر وہ علم کا گہوارہ بنتی ہیں۔ اسی طرح چنگیز خان کے نزدیک لائبریریاں کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔ ضیاء الحق کے اس دور میں سیاسی کارکنوں سے جیلوں کو بھرا جارہا تھا صرف ایک جماعت پیپلزپارٹی کے تین ہزار سے زائد کارکن جیلوں میں بند تھے۔ کوڑے تھے‘ پھانسیاں تھیں۔ دیواریں پھلانگ کر رات کے اندھیرے میںظلم ہوتا ۔ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی اسی قسم کا سلوک کیا جارہا تھا۔ جن گھروں کے مرد زیر زمین ہوجاتے ان کے بچے‘ خواتین‘ لواحقین یرغمال بنا لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات غائب کئے گئے افراد کی لاشیں بوریوں میں بند گھر کے باہر پڑی ہوئی پائی جاتیں۔ اکتوبر 1979ء سے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی۔ اگرچہ ضیاء الحق‘ اصغر خان‘ مفتی محمود‘ ولی خان‘ جماعت اسلامی وغیرہ کی مدد سے اقتدار میں آیا تھا مگر ضیاء الحق کے مظالم میں سیاسی جماعتیں اس کے ساتھ برملا شریک عمل نہیں تھیں۔ اس وقت چونکہ سوویت یونین افغانستان میں آ چکا تھا امریکہ کو ضیاء الحق کی ضرورت تھی اس لیے اس کو امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ آج کل امریکہ اور روس کے تنازع بالخصوص یوکرین کی وجہ سے موجودہ حکمران طبقات کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے مگر ڈھائے جانے والے مظالم تو اس کے کھاتے میں درج ہوتے ہیں جس نے یہ ظلم بپا کئے ہوں۔ اس خطے میں شہنشاہ ایران امریکہ کے مفادات کا سب سے بڑا محافظ تھا‘ اپنے اقتدار کو مظالم ڈھا کر اور خوف پھیلا کر مضبوط اور طویل کرتا رہا مگر جب ایران میں انقلاب برپا ہوا تو اس کو اپنے حواریوں سمیت دنیا میں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملی۔ امریکہ نے اس کی لاش امریکہ میں دفن کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ شہنشاہ ایران اور ضیاء الحق کے مظالم کی داستانیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ عالمی سطح پر بے شمار کتابوں میں اس طرح موجود ہیں کہ دنیا میں ہونے والے دور جدید کے مظالم پر تحقیق کرنے والوں کے لیے حوالہ جات بن چکی ہیں۔ ہر دور کے چنگیز خان نے نہ تو آنے والی نسلوں کے لیے لکھی جانے والی تاریخ کی پروا کی اور نہ ہی اپنے عوام کی مگر تاریخ نے ان کی بھی پروا کی اور بدترین الفاظ میں یاد رکھا اور عوام نے بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو کئی نسلوں تک یاد رکھا۔ میری ماں نے میرے لڑکپن کے دور میں دوستووسکی یا میکسم گورکی کا یہ بول پڑھ کر سنایا تھا کہ انسان کو زندگی ایک بار ملتی ہے وہ اسے اس طرح گزارنی چاہیے کہ کبھی اسے اپنے ماضی پر ندامت نہ ہو۔ وہ کہہ سکے کہ میں نے اپنی ساری زندگی اور طاقت بنی نوع انسان کی آزادی کے لیے وقف کردی۔ شاید اب اس طرح کی مائیں پیدا نہیں ہوتیں اور اگر پیدا ہوتی بھی ہیں تو بہت کم۔ اب تو اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے والی نسلیں پیدا ہو چکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہیں بن گئی ہیں اور ہر طرح کی برائی کو زندگی کے معمول کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔ اس پر ایک اور ظلم یہ ہوا ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقات میں 1772ء میں فرانس میں پیدا ہونے والے Tarrare نے دوبارہ جنم لے لیا ہے جو جس قدر بھی کھاتا تھا اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔ جب وہ دس سال کا تھا تو ایک چوتھائی گائے کھا جاتا تھا۔ وہ ایک کسان گھرانے یا شاید گائوں کے لوہار کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا خاندان اس کی بھوک کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ 17 سال کی عمر میں اسے گھر سے نکال دیا گیا۔ چند سال تک وہ سڑک پر اپنے کھانے کے کرتب دکھانے کا کام کرتا رہا‘ ہجوم اس کو سیب کی ٹوکریاں‘ زندہ جانور‘ بوتلوں کے کارک‘ چقماق پتھر‘ لوہا وغیرہ دیتے اور وہ سب کچھ کھا جاتا اور ہضم بھی کرجاتا۔ نہاری‘ پائے‘ چھولے‘ پٹھورے وغیرہ اس وقت فرانس میں دستیاب نہیں تھے۔ سانپ کا گوشت اس کی مرغوب غذا تھی۔ بالآخر تارارے کو فوج نے گود لے لیا۔ فوج اس سے جاسوسی کا کام لیتی۔ وہ چھوٹے چھوٹے ڈبے اور آلات کھا جاتا اور جاسوسی کا کام کر کے انہیں پیٹ سے نکال دیتا۔ بالآخر وہ اپنی بھوک کی وجہ سے پکڑا گیا۔ اس وقت آف شور کمپنیز نہیں ہوا کرتی تھیں۔ جب وہ فوج کے لیے بوجھ بن گیا تو فرانسیسی فوج نے اس کے سر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا مگر جب کبھی ضرورت پڑتی وہ اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا کرتے۔ ایک بار وہ پلیٹ لیس والا نہیں بلکہ سچ مچ بیمار پڑ گیا۔ اسے ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں پر وہ مریضوں کا خون پی جاتا۔ ایک روز وہ چودہ ماہ کے بچے کو کھا گیا جس کی وجہ سے اسے ہسپتال سے نکال دیا گیا۔ بالآخر وہ 1798ء میں مر گیا۔ Tarrare کے اسرار مکمل طور پر حل نہیں کئے جا سکے۔ پاکستان میں کئی تارارے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کو کھا رہے ہیں اور ان کے پیٹ ہیں کہ بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ اسی طرح عوام پر چنگیزی مظالم ہیں جو اپنی بدترین شکل میں جاری ہیں۔ چنگیز خان اور تارارے دونوں ہی ایسے ہیبت ناک اور حیران کن کردار ہیں کہ تاریخ انسانی نے نہیں دیکھے۔ تاریخ نے چنگیز خان کے ہولناک مظالم کو بھی معاف نہیں کیا کہ تارارے کی بھوک اور ہوس کوبھی نہیں بھلایا۔ تاریخ اور عوام کی پروا کرنی چاہیے۔

Leave a Reply