Tasuwrati budget

تصوراتی بجٹ




ہمارابجٹ کچھ ایسا ہوتاہے جیسے کھانا ختم ہونے کے باوجود مہمانوں کو یہ کہہ کر مطمئن رکھاجائے کہ تھوڑی دیر تک بس ابھی کھانا لگنے ہی والا ہے یہی روش خرابیوں کی اہم وجہ ہے کئی دہائیوں سے ہمارے حکمران اپنے ووٹروں سے ایسے ہی وعدوں کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور وعدے بھی ایسے جو کبھی ایفا نہیں ہوئے بارباردھوکہ ہونے کے باوجودعوام الناس کو بجٹ کا انتظارہوتاہے متوقع ریلیف کی آس میں لوگ ساراسال تکالیف اُٹھاتے ہیں حالیہ بجٹ کو حقیقی کے بجائے اِس لیے بھی تصوراتی کہہ سکتے ہیں کہ کل آمدن کے برابرپاکستان نے غیر ملکی قرضوں کی اقساط اور سود ادا کرنا ہے اِس کے باوجود ترقیاتی رقوم مختص کرنا مذاق ہی توہے تمام طبقات کے لیے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ایک الگ مسلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہوسکا اسی لیے غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جسے اب صرف جرات مندانہ فیصلوں سے ہی روکا جا سکتا ہے اور جرأت مندانہ فیصلہ یہ ہے کہ چادردیکھ کر پاؤں پھیلائیں جب تک ایسی حکمتِ عملی نہیں اپنائیں گے معاشی مسائل ختم نہیں ہوسکتے۔
معاشی ترقی کا داخلی استحکام سے گہراتعلق ہے اگر سیاسی استحکام نہ ہوتو ترقیاتی منصوبہ بندی کابھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا بدقسمتی سے گزشتہ کئی برس سے پاکستان بدترین داخلی عدمِ استحکام سے دوچار ہے لیکن لچھے دار باتوں کے سواحکمران کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے بجٹ کے حوالے سے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے سیلاب،عالمی سپلائی لائن میں رکاوٹیں اور دیگرعالمی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا انھوں نے سیاسی استحکام سے معیشت کو درپیش چیلنجز کی بات بھی دہرائی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے چارٹر آف اکانومی کو خوشحالی کے لیے ناگزیر قرار دیا مگر کیا عملی طور پر حکومت ایسی کسی روش پر گامزن ہے جس سے مذکورہ معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں؟ اسی لیے عوامی طبقات کہنے پر مجبور ہیں کہ موجودہ سیاسی عدمِ استحکام میں حکومت کااپناہاتھ ہے۔
ہر سیاستدان اپنی سیاست بچانے اور سیاسی کامیابیوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جس سے ملک کی معاشی جڑیں کھوکھلی ہوں ایسے اقدامات سے پرہیز کیاجاتاہے گزشتہ برس جس بدترین مہنگائی اور بے روزگاری کا عوام کو سامنا رہا ماضی میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی معاشی اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکے شرح ترقی کم ہوتے ہوتے محض 0.29 فیصد رہ گئی ہے البتہ موجودہ دورمیں مہنگائی کے نت نئے ریکارڈ قائم ہوئے جس میں تاریخی
29.9اضافہ دیکھنے میں آیا فی کس آمدنی جنوبی ایشیا کے تمام ممالک سے کم ہونے کے ساتھ ملکی معیشت سکڑ کر 341ارب ڈالر رہ گئی اِس کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی بجٹ میں سو فیصد اضافہ کردیا گیا جس پر فہمیدہ حلقے کافی حیران ہیں کیونکہ جب آئی ایم ایف جیسا عالمی مالیاتی اِدارہ ایک ارب بیس کروڑ ڈالر قرض کی نئی قسط دینے سے گریزاں ہے ملک کے ذرائع آمدن بھی کم ہوتے جارہے اور بجٹ خسارہ بڑھتاجارہا ہے توپھرترقیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟اسی بناپر حالیہ بجٹ کو تصوراتی کہہ سکتے ہیں مگر شیخ چلی کی طرح کے منصوبے بناکر ملک کو شاہراہ ترقی کی طرف نہیں لے جا یاسکتا۔
ملکی مسائل میں اضافہ کرنے میں ہماری سیاسی اشرافیہ کا اہم اورمرکزی کردار ہے جس نے ووٹ لینے کے لیے ایسے منصوبے شروع کیے جن کے فوائد دیرپا نہیں بلکہ وقتی ہیں حالیہ بجٹ میں 451 ارب بے نظیر پروگرام کے لیے رکھے گئے ہیں جس سے لوگوں کی وقتی اور محدودحد تک مدد کی جائے گی اِس رقم کا ملک یا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گاکیا ہی بہتر ہوتااگر پیسے دیتے ہوئے لوگوں کو پابند کر دیا جائے کہ صرف اُسے ہی پیسے ملیں گے جو حکومتی اِداروں سے کوئی ہنر سیکھیں اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ سال یا چھ مہینے حکومتی امداد پر گزربسر کرنے والا بعد جلدہی نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا بلکہ اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اُٹھانے کے بھی قابل ہو سکتا ہے یوں امدادکے ساتھ بحالی کا سلسلہ شروع ہوسکتاہے اور جوخاندان معاشی طورپر خودکفالت حاصل کر تاجائے اُس کی جگہ حکومت نئے خاندان کا اندراج کرلے لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب سیاست سے بالاتر ہو کر اخلاص سے مسائل حل کیے جائیں اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ بلوچستان اور سندھ میں ایسے سکولوں اور ہسپتالوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے جو محض کاغذوں کی حد تک موجود ہیں جن پر ہرسال اربوں روپیہ خرچ ہوتا ہے لیکن تعلیم یا صحت کے حوالے سے اِن کاکوئی کردارنہیں اگر حکومت ایسا طریقہ کار بنائے جس سے تعینات عملے پر چیک اینڈ بیلنس ہو تو ضائع ہونے والے اربوں روپے سے تعلیم و صحت کے حوالے سے بڑی حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے یہ کام کچھ زیادہ مشکل نہیں خیر ہمارا کام حضورکو نیک و بدسمجھاناہے اگرپھر بھی نعرہ فروشی سے ووٹر بنانے ہیں تو کوئی کیا کر سکتا ہے کیونکہ سمجھایا بھی اُسے جاتا ہے جو سمجھنے پر آمادہ ہو۔
پاکستان کی پس ماندگی کو سمجھنامشکل کام نہیں یہاں لوگوں کو پاؤں پر کھڑاکرنے کے بجائے یوٹیلٹی سٹورپراشیائے خورونوش اوربجلی پرسبسڈی دیکرایک طرف قوم کو بھکاری بنایاجارہا ہے مگر اِس طریقہ کار سے ملک غریب سے غریب ہورہاہے اگر جنوبی ایشیا ئی ممالک کا جائزہ لیا جا ئے توکہیں بھی ایساطریقہ رائج نہیں پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے خطے میں سب سے کم تعدادکام کرنے والوں کی ہے یہ بھی غربت وافلاس کی بڑی وجہ ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں ہمارے جیسا سیاسی عدمِ استحکام بھی نہیں اسی بناپر دیگرممالک نے تیزرفتارترقی سے پاکستان کو مات دے دی ہے زیادہ دور کیوں جائیں بنگلہ دیش کی نظیر سامنے ہے پاکستان سے الگ ہوکرجس کی ہر میدان میں ترقی ہمارے لیے چشم کشا ہے جس نے آمدہ برس ترقی کا ہدف 7.5رکھاہے مگر2023.24 کے میزانیہ میں پاکستان کی ترقی کا ہدف 3.5 ہے لیکن ملکی اور عالمی اِدارے اِس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں ورلڈ بینک حال ہی دوفیصدکے قریب ترقی کی پیشگوئی کرچکاہے یہ حالات بہت تشویشناک ہیں جس پر حکمرانوں کو غور کرنا چاہیے جب تک ہم بھکاری بنانے کی روش نہیں چھوڑیں گے اور لوگوں کو اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کی ترغیب نہیں دیں گے تب تک تصوراتی بجٹ بنتے رہیں گے اگرترقی کی منزل حاصل کرنی ہے اور شہریوں کو غربت سے نکالنا ہے توحکمتِ عملی حالاتِ حاضرہ کے مطابق بنانا ہوگی اور ملک کو سیاسی عدمِ استحکام سے نکالنا ہو گا۔

Leave a Reply