Zardari ki bari ya nawaz shareef ki bazi

زرداری کی باری یا نواز شریف کی بازی




پاکستانی سیاستدان پانی کے بہاؤ کے ساتھ تیرتے ہیں اور آصف زرداری مخالف سمت۔آج کل پیپلز پارٹی کا تخم کا موسم ہے اور کوئی دن آتا ہے کہ ثمر کا شجر لہلہا اٹھے گا۔سیاست محض فراست و بصیرت ہی کا نام نہیں یہ حکمت و اہلیت کے ساتھ جرات بھی مانگے ہے۔نواز شریف،مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کو قسام ازل نے سب چیزوں سے فراواں اور بے پایاں نوازا لیکن زرداری؟ زرداری کار جہانبانی اور رموز حکمرانی میں سب سے جدا رہے۔اک زرداری سب پر یونہی بھاری نہیں رہتے،دوسرے سیاستدانوں کی نسبت وہ چال بہتر اور کھیل برتر کھیلا کئے۔آسماں کی نیلی بوڑھی آنکھوں نے دیکھا کہ زرداری باکمال جانتے ہیں کب پیچھے ہٹنا اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ہرگز ہرگز کوئی کلام نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی زندگی بھی گہما گہمی اور ہما ہمی سے عبارت ہے لیکن پیپلز پارٹی تو برے سے برے اور کڑے سے کڑے حالات میں غریب سخت جاں کی طرح جیتی رہی۔زندگانی جی کے جینے سے ہی عبارت ٹھہری۔یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جینے کے لیے معیشت مستحکم اور مالی حالت مضبوط چاہئے۔آج کل زرداری سیاست،معیشت اور انتخابات پر کھل کر بول رہے اور گاہ گاہ ناگاہ نگاہ ملکی معیشت پر ڈالتے ہیں تو جان نکال لیتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے پیپلز پارٹی اپنی انتخابی مہم معیشت کے موضوع پر چلائے گی اور زرداری اقتصادیات اور مالیات پر لفظوں کے لالہ و گل کھلائیں گے۔کچھ سیاسیات کے شناور اورکئی انتخابات کے ماہر حیران و ہراساں ہیں کہ زرداری صاحب نے اتنا بڑا بول کیسے اور کیوں بولا کہ الیکشن اس وقت ہوں گے جب میں کراؤں گا۔ان کا یہ احساس تفخر بجا اور مان روا لیکن یہ اتنا آساں نہیں۔پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے مضبوط ستون تین ہیں،کیا ان کے بغیر عام انتخابات کا میدان سجایا اور محاذ لڑا جا سکتا ہے؟ جاننے والے جانتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے بغیر انتخابی تاریخ کا اعلان عام ممکن نہیں۔پھر کیا
وجہ ہے کہ زرداری صاحب اپنی بڑائی اور برتری کا تاثر تخلیق کرنے چلے ہیں؟بالکل ایسے ہی جیسے2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں کپتان کا ایمانداری کا بت تراشا گیا۔اس بت میں جس سامری نے روح پھونکی تھی،کیا وہ طاقتور جادوگر اب پیپلز پارٹی کے تن ناتواں میں بجلیاں بھر رہا ہے؟یادش بخیر ایوان بالا کے گزشتہ الیکشن میں بعض کی ہنرکاری اورکچھ کی زور آوری سے میدان مار لیا گیا تھا۔ہماشما کا تو ذکر کیا کہ تب بھی بڑے بڑے صحافی اور دانشور انگلیاں دانتوں میں دابے تھے کہ ہائے ہائے سینٹ کی سنگلاخ چٹان سے پیپلز پارٹی کا بنا سنورا مجسمہ کیسے نکل آیا۔
بدلتی ہواؤں کے مزاج سے آشنا بادبان اپنا رخ موڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔نازک مزاج پرندے بھی موسموں کی ادا کے ساتھ ہی پرواز کے لیے پر تول لیتے ہیں۔مرحوم مجید نظامی کے مرد حر مگر ایسے نہیں۔ زرداری کے مزاج شناسا گواہی دیتے ہیں کہ آنے والے وقتوں کا نقشہ اور زائچہ ان کے دماغ میں پہلے سے ہوتا ہے۔ زرداری کی معیشت پر نفیس و نستعلیق گفتگو،زر مبادلہ کے ذخائر پر شائستہ و شستہ لیکچر اور عوام سے کم ٹیکس وصولی پر اجلے اجلے مشورے دیکھ کر بہت سے سوالات دماغ میں کلبلانے لگتے ہیں۔گماں گزرتا ہے زرداری صاحب اب میثاق معیشت کی مہندی لگا، زرمبادلہ کی خوشبو چھڑک اور عوامی ٹیکس میں کمی کے نئے کپڑے پہن کر انتخابات جیتنے کا تہیہ طوفاں کئے بیٹھے ہیں۔سوچنے کا سوال بلکہ غور کرنے کا ساماں یہی ہے کیا زرداری صاحب معیشت سدھارکے نام پر اپنے سیاسی حریفوں کو الیکشن میں مات دے سکیں گے؟اقتدارکی بارگاہ ناز اور اختیار کی کارگاہ خاص میں ان کا طویل تجربہ ان سے یہ بھی کہلا گیا کہ دفاعی بجٹ اتنا زیادہ نہیں جتنا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔اسلام آباد کے اونچے اونچے سفارتی حلقوں اور لاہور کے بڑے بڑے ڈرائنگ روموں میں خبر گرم ہے کہ اب باری زرداری کی ہو سکتی ہے۔باری زرداری کی ہو یا بازی نواز شریف پلٹیں،ایک بات طے ہے کہ انتخابات معیشت کے موضوع پر ہی لڑے جائیں گے۔یہ 1980یا 1990 کی دہائی کہاں کہ جب لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور اور محدود ہوتے تھے۔یہ2023 کی جدید گھڑی ٹھہری کہ ایک نئی نسل جواں ہو چکی اور وہ خواب نہیں تعبیر مانگتی ہے۔
زرداری کی شطرنجی سیاست کے مقابل نواز شریف کی دھیمی سیاست کے سودو زیاں کا کبھی گوشوارہ مرتب نہ ہوا۔ہوا ہوتا تو سیاسیات کے طالب علموں کو معیشت،انتخابات،عوامی فلا ح و بہبود اور ملکی ترقی و ارتقا کے تقابل میں آسانی ہوتی۔ایک جانب زرداری کے لئے سیاست اور انتخابات کی راہیں کشادہ ہیں تو دوسری جانب نواز شریف کی سیاسی گلی انتہائی پتلی ٹھہری۔ہاتھ کی ہتھیلی برابر جتنی گہرائی ہوتی ہے،نواز شریف کو تو اتنی بھی آزادی میسر نہیں۔ہاں البتہ یہ کمی مریم نواز کی جرات و جانبازی پوری کر رہی ہے۔دیر سویر وقت آیا چاہتا ہے کہ نواز شریف بھی تمام دیواروں،رکاوٹوں،مخالفتوں اور مزاحمتوں کو ریت کا گھروندا سمجھ کر پھلانگ جائیں گے۔پیچھے جادوگروں کی سازشیں،جنوں کی چالاکیاں اور سازشیوں کی کہانیاں رہ جائیں گی۔باخبر مبصر قطعیت سے اور باشعور تجزیہ کار حتمیت سے بتایا کئے کہ معین وقت پر انتخابات ہو رہیں گے۔ہونے بھی چاہئے کہ الیکشن میں تاخیر جمہوری لوگوں کا شیوا نہیں کہ یہ شعار آمروں کا ہوا۔ انتخابی مہم میں کپتان کی شعلہ بیانیوں،خوش گپیوں اور خالی نعرے بازیوں کا مقابلہ اب زرداری کے معاشی قصے کہا نیوں سے ہو گا۔ ایک بات ماننا پڑے گی کہ مرد حر نے اب جو نعرہ پھینکا ہے وہ کمال ہے،لازوال اور بے مثال ہے۔ نواز شریف بھی اس کا توڑ ماضی کے ترقیاتی منصوبوں یا لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعووں سے نہ کر پائیں گے۔کون زرداری کو کہے کہ ما بدولت باتوں سے بیمار بندہ صحت مند نہیں ہوتا اور نہ ہی باتوں باتوں میں باغ لگایا جا سکتا ہے۔نواز شریف کو بھی کون سمجھائے کہ محض ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر آئین سے انحراف کا شجر نہیں اکھڑ سکتا۔

Leave a Reply